نقطہ نظر

اداریہ: ’ریاستی ادارے عہد کریں کہ وہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے‘

اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی سنگین ناانصافی کی بھرپائی تو نہیں ہوسکتی لیکن ریاستی ادارے یہ عہد ضرور کرسکتے ہیں کہ وہ تاریخ کے اس تاریک باب میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔

پاکستان کی پیچیدہ تاریخ میں بہت سے مقدمات ایسے رہے ہیں جنہیں حل نہیں کیا گیا، حتمی فیصلہ دے کر انہیں بند نہیں کیا گیا کیونکہ قوم بالخصوص ادارے ان واقعات کے پیچھے چھپا ’پورا سچ‘ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی برطرفی اور 1979ء میں ان کی پھانسی بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔

ان دونوں اہم ترین واقعات نے پاکستان کی تاریخ کی سمت تبدیل کردی جبکہ ان کے اثرات ابھی تک ہمارے نظام پر مرتب ہورہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مقدمے کے حوالے سے آنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔

سپریم کورٹ، 2011ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے دائرکردہ ریفرنس کی سماعت کررہی تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت پر عدالت سے رائے طلب کی گئی۔ 1974ء میں بانی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔ چار-تین سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا جس کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے کی توثیق ہوگئی تھی۔

یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس میں اصل فیصلے کو تبدیل کیا جاسکے، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے مختصر فیصلے میں ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے ٹرائل اور سپریم کورٹ کی اپیل نے ’منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے عمل کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کیا‘۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن نے اس نقطے کی توثیق کی جو قانونی ماہرین کئی دہائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا عدالتی انصاف کے لیے مضحکہ خیز ہے اور جیسا کہ ان کی پارٹی نے کہا کہ یہ ایک ’عدالتی قتل‘ ہے۔

یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ 4 دہائی پرانے مقدمے کو کیوں چھیڑا گیا جبکہ ناانصافی تو آج بھی جاری ہے۔ شاید ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے پر نظرثانی کرنا انہیں ناانصافیوں کی وجہ سے برمحل ہے۔ اس مقدمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبول منتخب وزرائے اعظم کی بھی تذلیل کی جا سکتی ہے، انہیں جیل بھیجا جا سکتا ہے حتیٰ کہ جب ریاست چاہے تو انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ یاد دہانی ہے کہ قانونی نظام کو طاقتور قوتوں کی خواہش کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔

عمران خان کے عدت کیس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برسوں میں احتساب عدالتوں میں نواز شریف کے مقدمات کے بعد عدلیہ کو اسی طرح کی تنقید کا سامنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے مختصر حکم میں کہا کہ ’ خود احتسابی کے جذبے کے تحت، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا’۔

خود ساختہ احتساب کی ضرورت عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی طبقہ سمیت تمام اداروں کو ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت ماضی میں ریاستی ستونوں نے اس آئین کو کمزور کرنے میں کردار ادا کیا جس کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔

اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہونے والی سنگین ناانصافی کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا لیکن ریاستی ادارے یہ عہد ضرور کرسکتے ہیں کہ وہ ملکی تاریخ کے اس تاریک باب میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔


یہ اداریہ آج ڈان اخبار میں شائع ہوا ہے، انگریزی میں پڑھیے۔

اداریہ