پاکستان

فوجی عدالتوں کیخلاف جلد سماعت کیلئے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سپریم کورٹ میں درخواست

ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے، اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی ماہ تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا، استدعا

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے گزشتہ روز اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے ذریعے ایک درخواست دائر کی، جس میں استدعا کی گئی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔

درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیونکہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا، جس میں 103 شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا۔

اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا، بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ 5-1 کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔

29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت پر جسٹس سردار طارق مسعود (جو کہ ریٹائر ہو چکے ہیں) نے یہ انٹرا کورٹ اپیل 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دی تھی تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔

چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بنچوں کی تشکیل کا کام سونپا گیا ہے۔

معاملہ کمیٹی کو دیتے ہوئے سابق جسٹس (ر) سردار طارق مسعود نے واضح کیا تھا کہ 23 اکتوبر کا حکم نامہ بینچ کی تشکیل تک معطل رہے گا۔

9 ججوں پر مشتمل لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنی درخواست میںمؤقف اختیار کیا کہ عدالتیں بنیادی حقوق کی محافظ ہیں جن کی آئین کے تحت ضمانت دی گئی ہے، یہ شہری کئی مہینوں سے فوجی حراست میں ہیں، سب جانتے ہیں کہ ان کے ٹرائل مکمل ہو چکے ہیں اور صرف فیصلے کا اعلان ہونا باقی ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ آزادی کے حق کے تحفظ کے لیے مذکورہ اپیل اور متعلقہ اپیلوں کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جانا چاہیے۔

درخواست میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے مؤقف اختیار کیا کہ کیس کی سماعت لارجر بینچ کو کرنی چاہیے اور انٹراکورٹ اپیل پر کارروائی جاری رکھنے کے لیے 9 ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے کسی بینچ کی جانب سے کوئی ایسا حکم موجود نہیں ہے جو اِن شہریوں کو رہا کرنے یا انہیں سویلین قانون نافذ کرنے والے حکام کے حوالے کرنے سے حکومت کو روکتا ہو۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ 103 افراد کو فوجی حکام نے غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا ہوا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا ہے، استدعا ہے کہ موجودہ اپیل اور متعلقہ اپیلوں کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔

آئین کے آرٹیکل 9 (کسی بھی فرد کو زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا) کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست گزار نے کہا کہ 103 افراد کی آزادی کا بنیادی حق خطرے میں ہے۔

وزیراعظم نے بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیوں کی رپورٹ طلب کرلی

کیٹ مڈلٹن کی سرجری کے بعد پہلی ویڈیو منظرِ عام پر آگئی

امریکی محکمہ خارجہ کا پاکستان اور روسی انتخابات میں موازنے کے سوال پر سخت ردعمل