پاکستان

’ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں‘، نواز شریف مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ صدر منتخب

سابق چیف جسٹس نے مجھے زندگی بھر کے لیے پارٹی صدارت سے ہٹادیاتھا، اتنے عرصے بعد بطور صدر مجھے واپس لانے والے کارکن خاموش کیسے بیٹھیں گے، نواز شریف کا جنرل کونسل اجلاس سے خطاب

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد، سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے 6 سال بعد ایک بار پھر پارٹی کا بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کے بعد کہا ہے کہ پارٹی کارکنوں نے سابق چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

لاہور میں پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احسن اقبال نے ابھی شرکا کو خاموش ہونے کا کہا، مجھے ثاقب نثار نے زندگی بھر کے لیے مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹادیاتھا، نواز شریف کو اتنے عرصے بعد یہ لوگ واپس لائےہیں، خاموش کیسےبیٹھیں گے۔

نواز شریف نے کہا کہ لیگی کارکنوں نے ثاقب نثار کا فیصلہ ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا، انہوں نے مجھے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہل کیا، میں نے اپنے بیٹے سے تنخواہ نہیں لی تھی، تمھارے بیٹے سے تو تنخواہ نہیں مانگی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کے نو منتخب صدر نے کہا کہ میرے اور شہباز شریف کے رشتے میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کی گئی، شہباز شریف نشیب و فراز کے باوجود کھڑے رہے، امتحان میں پورے اترے، شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کو ٹھوکر ماری مگر بے وفائی نہیں کی، شہباز شریف جھکے نہ بکے، میرے اور پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، شہبازشریف پارٹی صدارت کے امتحان میں پورے اترے۔

’ہمارے دوست شاہد خاقان نے بھی جیلیں کاٹیں، کبھی اف تک نہیں کی‘

انہوں نے کہا کہ شہباز شریف، مریم نواز، اور حمزہ شہباز نے جواں مردی اور بہادری کے ساتھ جیل کاٹی، ایک وقت وہ تھا جب میں جیل میں بیٹھا تھا، مریم نواز مجھ سے ملنے آ رہی ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے انہیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا جا رہا ہے، سب کارکن ہر امتحان میں پورے اترے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ایک دوست شاہد خاقان عباسی بھی ہیں، جنہوں نے بڑی مصیبتیں جھیلی ہیں، انہوں نے 1999 میں میرے ساتھ بہادری سے جیلیں کاٹی ہیں، کبھی انہوں نے اُف تک نہیں کی، میرے بہت چھوٹے بھتیجے نے بھی جیل کاٹی، میں نے کسی کا نام نہیں لیا تو میں معذرت چاہتا ہوں، یہ سب پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ جب جب ہماری جماعت کی حکومت آئی تو ملک کی سمت تبدیل ہوگئی، ملک کی تقدیر بدلنی شروع ہوگئی، اگر ہماری حکومتوں میں اگر خلل نہ آتا تو ملک اس بر اعظم میں منفرد حیثیت رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ1947سے جاری ہے جس سے ملک کو بےحد نقصان پہنچا، ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ہم نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑیاں ماریں۔

’میں نے 460 ارب کا ڈاکا مارا ہوتا، آپ میری چھٹی کراتے تو مجھے بھی گلہ نہ ہوتا‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) حکومت کو ختم نہ کیاجاتا تو ملک میں غربت نہیں خوشحالی ہوتی، میرے دور میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آج کی نسبت کئی گنا کم تھیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خوشحالی صرف چار، پانچ لوگوں نے چھین لی، بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر نا اہلی، کونسے ملک میں ایسے فیصلے ہوتے ہیں، یاتو یہ ہوتا کہ میں نے 460 ارب کا ڈاکا مارا تھا، عمران خان کے ٹرسٹ القادر ٹرسٹ کو آپ جانتے ہیں نا؟ اگر میں نے 460 ارب کا ڈاکا مارا ہوتا اور آپ میری چھٹی کراتے تو مجھے بھی گلہ نہ ہوتا، شاید پاکستان میں میرا ہمدرد بھی نہ ملتا، ان لوگوں نے پاکستان کو تباہ و برباد کیا ہے۔

نواز شریف نے کہا کہ ان چار، پانچ لوگوں نے آپ کے مینڈیٹ کو تباہ و برباد کیا، مجھے بتایا جائے کہ ہمارے اوپر یہ جھوٹے کیس کیوں بنائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ آج عمران خان کے خلاف سچے کیسز ہیں، کونسا ایسا کیس ہے جو غلط ہیں، جھوٹ ہے، ذرا مجھے بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ (عمران خان) نے تو سیاست ہی ان کے کندھوں پر بیٹھ کر شروع کی، آج آپ وہ ٹیپ سنیں، میں نے بنی گالا میں عمران خان کو کہا کہ آئیں مل کر ملک کی خدمت کریں، مجھے ان کی ضرورت نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ان کے پاس گیا۔

’میں نے کہا آپ نے جو کرنا ہے کرلیں، نواز شریف نے کبھی استعفیٰ نہیں دیا‘

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ اس کے بعد عمران خان لندن چلے گئے جہاں لندن پلان بنا، صحافی مبشر لقمان نے کہا میں خود اس میٹنگ میں تھا، میں نے ہی اس ہوٹل کا بل ادا کیا تھا، اس میں طاہر القادری، عمران خان، چوہدری پرویز الہیٰ اور ایک جنرل صاحب تھے، اس کے بعد انہوں نے دھرنا دے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد دھرنوں کے دوران میرے پاس ایک بندہ بھیجا گیا کہ نواز شریف آپ استعفٰی دیں اور گھر جائیں، یہ میں آپ کو وہ بتا رہا ہوں جو وزیراعظم پر گزر رہی ہے، ہمارے وزیراعظم ایسی ایسی چیزوں سے گزرے ہیں اور مجھے کہا گیا کہ آپ تیار رہیں، آپ کے ساتھ وہ سلوک کیا جائےگا جس کو آپ یاد رکھیں گے، نواز نے بتایا کہ میں نے انہیں کہا کہ آپ نے جو کرنا ہے کرلیں، نواز شریف نے کبھی استعفیٰ نہیں دیا،

’ظہیر الاسلام نے تیسری قوت کی طرف اشارہ کیا، وہ پی ٹی آئی نہیں تھی تو میں سیاست بھی چھوڑنے کو تیار ہوں‘

اس کے بعد وہ کہتا ہے کہ میں اس میٹنگ میں بھی موجود تھا، وہ شخص جب آپ سے بات کرنے گیا تو واپس آکر کہتا ہے کہ نواز شریف تو مطمئن اپنی جگہ پر بیٹھا ہے، وہ کہتا ہے جس نے جو کرنا ہے، کرلے۔

نواز شریف نے کہا کہ اس کے بعد وہ موصوف جو لندن گئے تھے ظہیر الاسلام کہتے ہیں کہ ہم نے مختلف پارٹی کو ٹرائی کیا، ہم نے تیسری قوت کو اجازت دی، وہ تیسری وقت ہمیں لگا کہ شاید ڈیلیور کرسکتی ہے، وہ سسٹم ہمیں پی ٹی آئی کے اندر نظر آیا۔

صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ عمران خان باقی سب باتوں کو چھوڑیں، ہمیں طعنہ دینے اور ہم پر انگلی اٹھانے سے پہلے بتائیں کیا وہ تیسری قوت آپ نہیں تھے، اگر وہ آپ نہیں تھے میں سیاست سے ریٹائر ہو کر گھر جانے کو تیار ہوں، میں سیاست چھوڑ دوں گا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر تیسری قوت کا اشارہ آپ کی طرف نہیں تھا تو میں سیاست بھی چھوڑنے کو تیار ہوں۔

نواز شریف نے کہا میں کہتا ہوں کہ انہی لوگوں نےآپ کی سیاست کی بنیاد رکھی، ہماری حکومت کا تختہ بھی آپ نے الٹوایا ان کی لوگوں کی مدد سے، ان کے حوصلے اتنے بلند ہوگئے تھے کہ وزیراعظم ہاؤس کے سامنے دھرنا ہو رہاہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف تہمارے گلے میں رسہ ڈلا کر کھینج کر تمہیں باہر لائیں گے، کس کی ایما پر اتنی بڑی بڑی دھمکیاں دے رہے تھے، کیا یہ وہی ایمپائر کی انگلی نہیں تھی جس کا عمران خان بار بار ذکر کرتے ہیں۔

’عمران خان جیسا بندہ ہوتا تو کہتا مائی باپ 5 ارب ڈالر دیں، دھماکے نہیں کریں گے‘

سابق وزیراعظم نے کہا کہ عمران خان ان باتوں کا جواب دیں گے تو اس کے بعد آپ ہم سے بات کرنا، آپ کے کیس میں کوئی میرٹ نہیں، آپ ان لوگوں کی پیداوار ہیں، 2018 کے الیکشن میں جو ہوا، ان لوگوں کے ساتھ ساتھ اس کے بھی آپ ذمےدار ہیں، ہم 28 مئی والے ہیں، 9 مئی والے نہیں ہیں۔

نواز شریف نے کہا کہ ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر ہمیں امریکی صدر کی جانب سے 5 ارب ڈالر کی پیش کش کی گئی جو ہم ٹھکرادی، اگر عمران خان جیسا بندہ اس وقت کوئی ہوتا تو کہتا مائی باپ آپ 5 ارب ڈالر دیں، قوم کو میں سنبھالوں گا، ایٹمی دھماکے ہم نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دھماکے کیے، اس کے بعد بھارتی وزیراعظم واجپائی لاہور آئے، یہاں آکر ہم سے معاہدہ کیا، یہ الگ بات ہے کہ ہم نے معاہدے کی خلاف ورزی کی، اس میں ہمارا قصور ہے۔

نواز شریف 6 سال بعد ایک بار پھر بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب

قبل ازیں لاہور میں پارٹی سیکریٹریٹ ماڈل ٹاؤن میں مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل کا اجلاس ہوا، اجلاس میں قائد مسلم لیگ (ن) نواز شریف، وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحٰق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اور حمزہ شہباز شریف سمیت دیگر رہنما شریک تھے۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے مرکزی رہنما اسحٰق ڈار نے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال ٹریفک جام کے باعث یہاں نہیں پہنچ سکے تو ان کے حوالے سے میں یہ گزارش کروں گا کہ 2017 میں جب ہمارے قائد کو نا اہل کیا گیا تو ہم نے اسی وقت قانون میں یہ ترمیم پیش کی تاکہ نواز شرفی بطور پارٹی صدر عہدہ برقرار رکھیں لیکن اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ ثاقب نثار نے اس ہمارے قانون کو کالعدم قرار دے دیا۔

انہوں نے کہا کہ بعد ازاں کی ہدایت اور ان کہ رہنمائی پر صدارت شہباز شریف کو سونپی گئی، شہباز شریف نے پہلے دن ہی کہا یہ نواز شریف کی امانت ہے، دسمبر 2022 میں جب پارٹی الیکشن کا ٹائم تھا، ہمیں نوٹس آ رہے تھے، تین بار جنرل کونسل اجلاس ملتوی کیا گیا، شہباز شریف نے کہا کہ نواز شریف ملک واپس آئیں تو میں ان کی امانت انہیں لوٹادوں۔

اسحٰق ڈار نے بتایا کہ شہباز شریف نے عہدے سے استعفیٰ دیا اور فیصلہ کیا گیاکہ 28 مئی کو نئے صدر کا انتخاب کیا جائے گا۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے کہا کہ دو ہزار سترہ، اٹھارہ میں پارٹی سے قائد کو چھیننے والےآج تاریخ کے کہٹرے میں رسوا ہو رہے ہیں، ہمارے قائد اور ہماری جماعت سرخرو ہو رہے ہیں۔

نواز شریف کے بطور انتخاب کے بعد انہوں نے کہا کہ 2028 2024 کو نواز شریف کا انتخاب ہماری جماعت کو بھی ایٹمی قوت بنا دے گا۔

راناثنااللہ نے کہا کہ شہباز شریف نے کہا پارٹی کے صدر کے عہدے کے لیے جو کارروائی ہوئی، وہ آپ کے سامنے پیش کرنے جا رہا ہوں، 11 مئی کو شہباز شریف نے صدارت سے استعفیٰ دیا، اپنے استعفے میں انہوں نے وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ 2017 میں ایک سازش کے تحت نواز شریف کوپارٹی کی صدارت سے ہٹایا گیا، ان پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، انہیں غیر قانونی طریقے سے نا اہل قرار دیا گیا۔

ان کا کہنا تھا اب جبکہ ان کے خلاف درج جعلی، ناجائز مقدمات اپنے انجام کو پہنچے ہیں، وہ سرخرو ٹہرے ہیں، میری دلی خواہش ہے کہ جو امانت میرے پاس ہے، میں اسے دوبارہ نواز شریف کے سپرد کروں۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق سینٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس 18 مئی کو طلب کیا گیا، بعد ازاں الیکشن شیڈول کا اعلان کیا گیا، آج تک کاغذات نامزدگی وصول کرنے کا وقت رکھا گیا تھا، مقررہ وقت تک 10 کاغذات نامزدگی موصول ہوئے، ان کاغذات میں نواز شریف کو بطور امیدوار نامزد کیا گیا، جانچ کے بعد تمام کاغذات ضابطے کے مطابق پائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ درج بالا صورتحال میں نواز شریف واحد امیدوار ہیں جن کے کاغذات موصول اور منظور ہوئے، میں آپ کے سامنے اس کارروائی کو تائید اور منظوری کے لیے پیش کرتا ہوں کہ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی جنرل کونسل کا یہ اجلاس الیکشن کی کارروائی کو پارٹی آئین کی شق 15 اور 120 اے اور 121 کے تحت عمل میں لایا گیا ہے، جس کی مکمل تائید و منظوری دیتے ہوئے آج کا یہ اجلاس میاں نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منتخب صدر قرار دیتا ہے۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ جو اراکین اس قرارداد کے حق میں ہیں، وہ کھڑے ہوکر اپنی تائید و منظوری کا اظہار کریں، اجلاس میں موجود شرکا نے کھڑے قرارداد کی تائیدکی۔

یاد رہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے 11 مئی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے استعفی دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2017 میں قائد محمد نواز شریف سے ناحق وزارت عظمیٰ اور جماعت کی صدارت چھین لی گئی۔

شہباز شریف نے اپنے استعفے میں کہا تھا کہ پارٹی اصولوں اور اقدار کے ساتھ پختہ وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے جماعت کی تاریخ کے اہم موقع پر یہ تحریر لکھ رہا ہوں، 2017 میں قائد محمد نواز شریف سے ناحق وزارت عظمی اور جماعت کی صدارت چھین لی گئی۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ہماری جماعت اور قیادت نے تمام مشکلات کا جرات اور ثابت قدمی سے مقابلہ کیا، دور ابتلا و آزمائش میں قائد محمد نواز شریف نے جماعت کی صدارت کی امانت مجھے سونپی تھی، پوری دیانتداری اور جذبے سے یہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی۔

شہباز شریف نے لکھا تھا کہ میرے محبوب قائد کی بریت ان کے باوقار کردار اور قوم کی خدمت کے بے داغ ماضی کی گواہی ہے، اس عہدے کو ہمیشہ ایک امانت سمجھا ہے جسے اپنے قائد کو واپس لوٹا رہا ہوں کہ وہ ملک اور جماعت کی راہنمائی فرمائیں، 2024 کے عام انتخابات کے بعد جماعت نے مجھے وزیراعظم بنایا۔

شہباز شریف نے مزید لکھا تھا کہ اپنے محبوب قائد محمد نوازشریف سے غیرمتزلزل وفاداری کا عہد دوہراتا ہوں، احساس ذمہ داری اور جماعت کے اصولوں کے مطابق عہدے سے استعفی پیش کرتا ہوں۔

خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو نواز شریف سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزارت عظمیٰ سمیت پارٹی صدر کے عہدے سے بھی ہٹادیے گئے تھے۔

قائد اعظم کے بعد نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کو عوامی سطح پر مقبول جماعت بنایا، رانا ثنااللہ

مسلم لیگ(ن) کا شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ

’نواز شریف سے ناحق وزارت عظمیٰ، صدارت چھینی گئی‘ شہباز شریف پارٹی صدارت سے مستعفی