دنیا

ڈونلڈ ٹرمپ مجرم قرار پانے والے پہلے سابق امریکی صدر

ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر 2024 میں ہونے والے الیکشن کی مہم چلانے سے نہیں روکا گیا اور وہ جیل جانے کی صورت میں بھی اپنے حریف جو بائیڈن کے لیے مشکلات کا باعث بنے رہیں گے۔

نیویارک کی عدالت کی جانب سے خاموش رہنے کے لیے رقم کی ادائیگی سے متعلق تمام الزامات پر مجرم قرار دیے جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ پہلے سابق امریکی صدر بن گئے ہیں جنہیں کسی جرم کا مجرم قرار دیا گیا ہے جب کہ یہ فیصلہ ان انتخاب سے قبل سامنے آیا جو انہیں دوبارہ وائٹ ہاؤس کا مکین بنا سکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹس کے مطابق عدالت نے سابق صدر کو فحش فلموں کی اداکارہ اسٹارمی ڈینیئلز کو خاموش رہنے کے لیے کی گئی ادائیگی کو چھپانے کے لیے کاروباری دستاویزات میں جھوٹ بولنے پر عائد تمام 34 الزامات کے تحت مجرم پایا۔

امریکی عدالت کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ پر عائد تمام 34 الزامات درست ثابت ہوئے، 11 جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ کی سزا کا اعلان کیا جائے گا۔

77 سالہ ڈونلڈ ٹرمپ نے کسی بھی غلط کام کی تردید کی ہے اور ان کی جانب سے اپیل کیے جانے کی توقع ہے، انہیں زیادہ سے زیادہ 4 سال قید کی سزا کا سامنا ہے، حالانکہ اس جرم کے مرتکب دیگر افراد کو اکثر کم سزائیں یا جرمانے ملتے ہیں۔

رائے عامہ کے جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور 81 سالہ جوبائیڈن ایک سخت صدارتی دوڑ میں بندھے ہوئے ہیں، اور رائٹرز/ اِپسوس پولنگ کے مطابق اس فیصلے سے ڈونلڈ ٹرمپ آزاد اور ریپبلکن ووٹروں کی کچھ حمایت کھو سکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے 2016 کے صدارتی انتخاب سے قبل ایک پورن اسٹار اسٹورمی ڈینیئلز کو ادا کی گئی ’ہش منی‘ (یعنی کسی شخص کو مخصوص راز افشا نہ کرنے کے عوض رقم دینا) کو چھپانے کے لیے کاروباری ریکارڈ میں ہیر پھیر کی ہے۔ سابق امریکی صدر نے پورن اسٹار کو ایک لاکھ 30 ہزار ڈالر ادا کیے تھے۔

77 سالہ ریپبلکن رہنما جنہیں بغیر ضمانت کے رہا کردیا گیا، جو اب ایک مجرم ہیں، ایک ایسے ملک کے پہلے شخص ہیں جہاں صدر کو دنیا کا طاقتور ترین شخص کہا جاتا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر 2024 میں ہونے والے الیکشن کی مہم چلانے سے نہیں روکا گیا اور وہ جیل جانے کی صورت میں بھی اپنے حریف جو بائیڈن کے لیے مشکلات کا باعث بنے رہیں گے۔

ان کے وکیل نے کہا کہ ان کی ٹیم فیصلے کے خلاف اپیل جلد از جلد اپیل کرنے پر غور کر رہی ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے خود بھی فوری اپنا دفاع کرنے کا کہا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک بہت معصوم آدمی ہوں،
انہوں نے پرعزم انداز میں کہا کہ حقیقی فیصلہ انتخابی دن ووٹرز کی جانب سے آئے گا، انہوں نے اپنے خلاف کیس کو غیر شفاف اور باعث شرم قرار دیا۔

جو بائیڈن کی ٹیم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ مقدمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں، ہماری جمہوریت کو ڈونلڈ ٹرمپ سے درپیش خطرہ اب تک کا سب سے بڑا خطرہ ہے‘۔

جج جوآن مرچن نے 11 جولائی کو سزا سنانے کا اعلان کیا جب کہ اس کے صرف 4 روز بد ملواکی میں ریپبلکن نیشنل کنونشن ہے جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کو پارٹی کی جانب سے باضابطہ صدر نامزد کیا جانا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کو وفاق اور ریاست کی جانب سے 2020 میں جو بائیڈن کی جانب سے جیتے گئے الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرنے کے لیے سازش کے الزمات کا بھی سامنا ہے، ان کے خلاف وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد خفیہ دستاویزات رکھنے کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

تاہم، وہ مقدمات جو کہ سنگین تر مبینہ جرائم کے تحت قائم ہیں، ان کے فیصلے صدارتی انتخابات سے قبل ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔

اپنے خلاف فیصلہ آنے کے فوری بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کی ٹیم کی جانب سے ’میں ایک سیاسی قیدی ہوں‘ کے عنوان سے فنڈز جمع کرنے کی اپیل کی گئی، سابق صدر نے اعلان کیا کہ وہ جمعے کی صبح صحافیوں کے لیے ایک عوامی بیان جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کی درخواست پر فل کورٹ تشکیل

چوتھا ٹی20: انگلینڈ نے پاکستان کو 7 وکٹوں سے شکست دے دی

ملالہ یوسف زئی کا اداکاری کا آغاز