پاکستان

گرفتار شاعر احمد فرہاد کا طبی معائنہ مظفرآباد کے ہسپتال سے کروالیا گیا

ہم چاہتے تھے کہ ان کی تشویشناک حالت کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل کرایا جائے لیکن ڈاکٹرز انہیں داخل کرنے کی ہمت نہیں کر سکے، وکیل احمد فرہاد

زیر حراست کشمیری شاعر احمد فرہاد شاہ کے وکیل کی جانب سے نے ان کی درخواست ضمانت کی سماعت کے دوران انسداد دہشتگردی کی عدالت میں طبی معائنے کے حوالے سے اپیل کرنے کے کچھ گھنٹوں بعد شاعر کو مظفرآباد کے ایک ہسپتال لے جایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ابتدائی طور پر یہ درخواست مقامی وکیل سید ذوالقرنین نقوی نے جمعرات کو مظفرآباد کی سیشن عدالت میں دائر کی تھی جو کہ انسداد دہشت گردی کی ضلعی عدالت بھی ہے۔

تاہم، پولیس کی جانب سے التوا کی درخواست کے بعد جمعہ کو اس پر کارروائی نہیں کی جاسکی کیونکہ پولیس نے مؤقف اپنایا کہ انہوں نے حکومت سے ان کی نمائندگی کے لیے خصوصی پراسیکیوٹر کی تقرری کے لیے کہا ہے۔

کیس کی سماعت ہفتے کو دلائل کے لیے مقرر کی گئی اور اسی دوران حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل چوہدری منظور کو خصوصی پراسیکیوٹر مقرر کیا گیا، درخواست گزاروں نے بھی اپنے وکیل کو کرم داد خان عرف کے ڈی خان، فضل محمود بیگ اور کم از کم دو درجن دیگر مقامی وکلا سے تبدیل کردیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے سامنے اپنے دلائل میں کرم داد خان نے استدلال کیا کہ صدر تھانے میں درج ایف آئی آر نمبر 205/24 کے الزامات کا اطلاق احمد فرہاد شاہ پر نہیں ہوتا کیونکہ نہ تو وہ اس میں نامزد تھے اور نہ ہی وہ اس وقت مظفرآباد میں موجود تھے۔

انہوں نے سوال کیا کہ میرا مؤکل مظفرآباد میں ہجوم کو کسی غیر قانونی حرکت کے لیے کیسے اکسا سکتا ہے جب وہ جسمانی طور پر اسلام آباد میں تھا اور آزاد کشمیر کے کسی بھی حصے میں انٹرنیٹ سروس نہیں تھی؟ فرہاد شاہ صرف ایک شاعر ہیں جنہوں نے پاکستانی نظام پر اپنی شاعری کے ذریعے تنقید کی۔

وکیل کرم داد خان نے الزام لگایا کہ فرہاد شاہ کو سیکیورٹی اداروں نے 15 مئی کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے اغوا کیا اور 29 مئی کی صبح تک انہیں غلط حراست میں رکھا گیا، انہیں دھیرکوٹ سے پولیس نے جعلی ایف آئی آر کی بنیاد پر دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے گجر کوہالہ پولیس چوکی کے قریب چھوڑ دیا تھا۔

وکیل نے بتایا اسی شام فرہاد شاہ کو ایک اور ایف آئی آر کے تحت متعدد الزامات سے منسلک کرنے کے لیے مظفرآباد منتقل کر دیا گیا۔

کرم داد خان نے استدلال کیا کہ درخواست گزار کی طرف سے کوئی جرم نہیں کیا گیا اور یہ کہ سیکورٹی ایجنسیوں کا مقصد اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے شروع کی گئی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنا تھا، جس نے فرہاد شاہ کی شریک حیات کی طرف سے دائر ک گئی ایک رٹ پٹیشن کے بعد اعلیٰ انٹیلی جنس حکام کو ان کے کام کرنے کے طریقہ کار کی وضاحت کے لیے ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر درخواست گزار کی جانب سے واقعی کوئی جرم کیا گیا تو ایف آئی آر اسلام آباد میں درج کی جانی چاہیے تھی جہاں احمد فرہاد 10 سے 15 مئی کے درمیان موجود تھا۔

استغاثہ نے اپنے دلائل کے لیے وقت مانگا جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے اگلی سماعت کے لیے پیر کی صبح 11:30 بجے کا وقت مقرر کیا۔

کرم داد خان نے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) کے بجائے عباس انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) کے ڈاکٹروں سے ان کے طبی معائنے کی درخواست کے ساتھ عدالت کی توجہ اپنے مؤکل کی بگڑتی ہوئی صحت کی طرف بھی مبذول کرائی جہاں انہیں چیک اپ کے لیے جمعہ کی شام لے جایا گیا تھا۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ فرہاد شاہ کو شام تقریباً 4 بجے ایمز لے جایا گیا جہاں شام 6:30 بجے تک ان کے کچھ ٹیسٹ کیے گئے، 6 بجے کے قریب ہسپتال پہنچنے والے وکیل کرم داد خان اور فضل محمود بیگ نے الزام لگایا کہ فرہاد شاہ کا ایک جونیئر ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور وہ بھی اس وقت جب ان کی شریک حیات نے شور مچایا۔

وکیل محمود بیگ نے کہا کہ ہم چاہتے تھے کہ ان کی تشویشناک حالت کی وجہ سے انہیں ہسپتال میں داخل کرایا جائے لیکن ڈاکٹرز انہیں داخل کرنے کی ہمت نہیں کر سکے۔

فرہاد شاہ کے ساتھ ڈی ایس پی سید اشتیاق گیلانی، تھانہ صدر کے ایس ایچ او منظر چغتائی اور تھانہ کہوری کے ایس ایچ او لیاقت حمید تھے۔

یاد رہے کہ 31 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست نمٹانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے سماعت 7 جون تک ملتوی کر دی تھی۔

29 مئی کو وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران چند روز سے لاپتا شاعر احمد فرہاد کی گرفتاری ظاہر کردی تھی۔

اٹارنی جنرل نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ احمد فرہاد گرفتار اور دھیرکوٹ آزاد کشمیر پولیس کی حراست میں ہیں۔

24 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے لاپتا شاعر احمد فرہاد بازیابی کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا فیصلہ کرلیا اور سیکٹر کمانڈر کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا تھا۔

پس منظر

یاد رہے کہ 16 مئی کو آزاد کشمیر کے صحافی و شاعر فرہاد علی شاہ کو مبینہ طور پر اغوا کر لیا گیا تھا جس کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ لوہی بھیر میں کیا گیا تھا۔

شاعر فرہاد علی شاہ کی زوجہ سیدہ عروج کی مدعیت میں اغوا کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

مقدمے میں فرہاد علی کی اہلیہ نے موقف اختیار کیا تھا کہ میرے خاوند کو نامعلوم افراد نے سوہان گارڈن سے اغوا کیا اور بغیر وارنٹ ہمارے گھر میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ نامعلوم افراد نے ہمارے گھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے توڑے اور ڈی وی آر بھی ساتھ لے گیے۔

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ نامعلوم افراد میرے خاوند کو اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گیے، میرے خاوند بیمار ہیں اور ان کے لیے ادویات لازم ہیں لہٰذا میرے جاننے کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کی جائے۔

لاہور: ڈیفنس کار حادثہ کیس، ملزم افنان کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست مسترد

ٹی20 ورلڈکپ 2024:افتتاحی میچ میں امریکا نے کینیڈا کو شکست دیدی

لاہور: انسداد دہشتگردی عدالت اگلے ہفتے 9 مئی کے 4 مقدمات میں جیل ٹرائل کا آغاز کرے گی