پاکستان

پی ٹی آئی مرکزی سیکریٹریٹ سیل کرنے، سی ڈی اے آپریشن کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی، عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا مرکزی سیکریٹریٹ سیل کرنے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے آپریشن کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

ڈان نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب کی جانب سے وکلا شعیب شاہین اور عمیر بلوچ و دیگر عدالت میں پیش ہوئے، اس کے علاوہ سی ڈی اے کی جانب سے وکیل حافظ عرفات جبکہ ضلعی انتظامیہ سے سرکاری وکیل ملک عبد الرحمٰن عدالت میں حاضر ہوئے۔

سماعت کے دوران وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ سی ڈی اے نے اپنے ریکارڈ میں نوٹسز لگائے مگر موجودہ نوٹس کا کوئی ذکر نہیں، سی ڈی اے نے فراڈ کیا، اگر دیکھا جائے تو 2 نوٹسز کا ایک ہی نمبر ہے، انہوں نے جو نوٹسز بھیجے وہ پی ٹی آئی کو نہیں بلکہ سرتاج علی کو بھیجے ہیں، انہوں نے میڈیا کے سامنے بیان دیا کہ ہم سرتاج علی سے زمین واگزار کرارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے آپریشن کے وقت میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ پی ٹی آئی کو ہم نے نوٹس ہی نہیں کیا، ارشد داد اور نسیم الرحمن دونوں پی ٹی آئی کے ممبران ہیں ، ارشد داد اور نسیم الرحمن نے 17 جولائی 2020 کو ایک ایگریمنٹ کے بعد کمرشل پلاٹ خریدا ، 29 جولائی 2020 کو جی 8 کے اس پلاٹ کے مالک سراج علی نے سی ڈی اے کو ٹرانسفر کا خط لکھا، 30 جولائی 2020 کو سرتاج علی کا یہ پلاٹ پی ٹی آئی کے نام کرلیا گیا۔

وکیل شعیب شاہین نے بتایا کہ اگر انہوں نے فراڈ نہیں کیا تو تمام نوٹسسز کے ریفرنس نمبر کیوں نہیں ہیں؟ شوکاز نوٹس سے پہلے نوٹس دینا ضروری ہوتا ہے تو وہ نوٹس کہاں ہے؟ یہ پلاٹ پاکستان تحریک انصاف کے نام پر منتقل کر دیا گیاہے، کمرشل پلاٹ ہے جہاں پر پی ٹی آئی کا دفتر موجود ہے، کوئی کمرشل مقاصد نہیں، جس جگہ انہوں نے تجاوزات واگزار کرنے کا کہا ہے وہاں گاڑیاں کھڑی کرنے کے لیے ایک شیلٹر لگا تھا، 23 مئی 2024 کو اچانک رات سوا گیارہ بجے سی ڈی اے نے دفتر سیل کردیا۔

بعد ازاں سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ انہوں نے خود مانا ہے کہ انہوں نے کمرشل پلاٹ خریدا پھر اس کا استعمال ہی تبدیل کردیا، کمرشل پلاٹ کو پارٹی کے لیے استعمال کیا گیا جس سے وہاں کے لوگ متاثر ہورہے ہیں۔

اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ کونسے نوٹس میں کہا ہے کہ اس پلاٹ کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ؟ وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ کمرشل پلاٹ کو سیاسی دفتر بنانے کا غلط استعمال ٹھیک ہے بس ہمارے مختلف دستخط غلط ہیں، سی ڈی اے کا لیگل فریم ورک ہے اور وہ ایسے چیزوں پر نوٹسسز کرتے ہیں،

عدالت نے دریافت کیا کہ اگر کسی نے پلاٹ کرایہ پر دیا ہوا ہو تو نوٹس کس کو جائے گا؟ ہم نے کئی کیسسز دیکھے کہ سی ڈی اے کبھی ایک کو نوٹس کرتے ہیں کبھی دوسرے کو، سی ڈی اے ایسے معاملات پر مالک اور کرایہ دار کو نوٹسسز کیوں نہیں کرتے تاکہ یہ معاملہ ایک ہی بار میں ختم ہو؟

سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ پہلی بات یہ کہ جتنی اجازت دی گئی تھی تعمیر کی انہوں نے اوپر مزید تعمیر کی، سب سیکٹر میں چھوٹے چھوٹے شاپنگ مالز بنانے کی اجازت ہوتی ہے،انہوں نے سی ڈی اے رولز کی خلاف ورزی کی ہے، ان کو اپنا آپ رول ماڈل بنانا چاہیے، ان کے بہت سارے کارکنان آتے ہیں اور دیکھتے ہیں، سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے نوٹس پر ان کو اپنا کنڈکٹ درست کرنا چاہیے، اگر انہوں نے اپنی ہی کرنی ہے تو وہاں دیگر کمرشل پلاٹ کا بھی کوئی کمرشل استعمال نہیں کرے گا، اگر سی ڈی اے نے نوٹس کیا تو آپ سی ڈی اے آئیں اور قانونی طریقہ کار اپنائیں۔

اس پر پی ٹی آئی کے وکیل شیعب شاہین نے بتایا کہ ان کے پاس پی ٹی آئی کے نام پر آج بھی ایک نوٹس موجود نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

یاد رہے کہ 27 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ سیل کرنے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے آپریشن کے خلاف دائر درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراض دور کرنے کی ہدایت جاری کردی تھی۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی رہنما کی جانب سے دائر درخواست میں سی ڈی اے کی جانب سے مرکزی سیکریٹریٹ سیل کرنے کا حکم نامہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی، اس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ارشد داد اور نسیم الرحمٰن دونوں پی ٹی آئی کے ممبران ہیں، ارشد داد اور نسیم الرحمٰن نے 17 جولائی 2020 کو ایک معاہدے کے بعد کمرشل پلاٹ خریدا۔

اس میں مزید بتایا گیا کہ 29 جولائی 2020 کو جی 8 کے اس پلاٹ کے مالک سراج علی نے سی ڈی اے کو ٹرانسفر کا خط لکھا ، سراج علی کے خط کے بعد سی ڈی اے نے پلاٹ پی ٹی آئی کے نام الاٹ کر دیا، 23 مئی 2024 کو اچانک رات 11 بج کر 15 منٹ پر مجھے پتا چلا کہ وہاں سی ڈی اے کا آپریشن ہوا ہے،

یاد رہے کہ 25 مئی کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اسلام آباد میں اپنا مرکزی سیکریٹریٹ سیل کرنے اور کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے آپریشن کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرلیا تھا۔

24 مئی کو اسلام آباد کی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) اتھارٹی نے بلڈنگ قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے اسلام آباد سیکرٹریٹ کو سیل کردیا تھا۔

24 مئی کو اسلام آباد کی کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی(سی ڈی اے) نے بلڈنگ قوانین کی مبینہ خلاف ورزی پر تجاوزات کے خلاف آپریشن کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سیل کیے گئے اسلام آباد سیکرٹریٹ کی عمارت کے ایک حصے کو مسمار کردیا تھا۔

اسلام آباد میں سی ڈی اے انتظامیہ نے تحریک انصاف کے مرکزی سیکریٹریٹ میں آپریشن کے دوران اسے تجاوزات قرار دے کر ایک حصہ کو گرا دیا تھا۔

سی ڈی اے کے مطابق کارروائی تجاوزات قائم کرنے اور عمارت کے غیر متعلقہ استعمال پر کی گئی ہے، سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ کارروائی تجاوزات کے قیام اور عمارت کے غیر متعلقہ استعمال پر کی گئی ہے جس میں بھاری مشینری نے حصہ لیا اور سینٹرل سیکریٹریٹ کے ارد گرد رکھے کنٹینرز، سیکیورٹی بیریئرز اور دیگر مبینہ تجاوزات کو مسمار کر دیا۔

اسلام آباد میں سی ڈی اے حکام نے اسلام آباد پولیس کی نگرانی میں رات گئے جی8 سیکٹر میں کارروائی کی تھی اور تحریک انصاف کے پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ کو سیل کر دیا تھا۔

سی ڈی اے کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ عمارت سرتاج علی نامی شخص کے نام ہے جسے رہائشی عمارت سے سیاسی دفتر میں بدلا گیا جس پر متعلقہ مالک کو بارہا نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں تاہم قانون پر عملدرآمد نہیں کیا گیا جس پر کارروائی عمل میں لائی گئی۔

بیان میں کہا گیا کہ سیکٹر جی 8 میں سیاسی جماعت کے ایک پلاٹ پر تجاوزات کو ختم کیا جا رہا ہے کیونکہ پلاٹ سے ملحقہ اراضی پر قبضہ کرکے تجاوزات قائم کی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پلاٹ پر بلڈنگ بائی لاز کے خلاف ایک اضافی منزل بھی تعمیر کی گئی تھی جبکہ اس کے علاوہ بھی پلاٹ پر مالک کی طرف سے متعدد دیگر خلاف ورزیاں کی گئیں۔

اعلامیے میں پلاٹ کے مالک کو متعدد بار نوٹسسز جاری کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا کہ نوٹسز 19 نومبر 2020، 22 فروری 2021 اور 14 جون 2022 کو جاری کیے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ 4 ستمبر2023 کو خلاف ورزیاں ختم نہ کرنے پر شوکاز نوٹس جاری کیا تھا جبکہ 10 مئی کو پلاٹ کو سر بمہر کرنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

آپریشن کی اطلاع ملنے پر چیئرمین پی ٹی آئی گوہر خان اور اپوزیشن لیڈر عمر ایوب موقع پر پہنچ گئے تھے اور اسے مسترد کرتے ہوئے آپریشن کو انتقامی کارروائی قرار دیا تھا۔

چیئرمین تحریک انصاف بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ سی ڈی اے کی جانب سے پی ٹی آئی سیکریٹریٹ کو کبھی کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے معاملے پر آئی جی اسلام آباد اور سی ڈی اے چیئرمین کے خلاف ایوان میں تحریک استحقاق لانے کا اعلان کردیا تھا۔

عمر ایوب نے کہا تھا کہ اگر بلڈنگ پر اعتراض تھا تو ہمارے پاس آتے، ہمیں تجاوزات کے حوالے سے بتایا جاتا، ہم ان کو الگ کرتے، ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی اے والے آتے، ہم ان کو اور وہ ہمیں دستاویزات دکھاتے تو احسن طریقے سے معاملے کو نمٹایا جاسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بانی چیئرمین عمران خان چونکہ پاکستان میں آئین کی بات کر رہے ہیں اس لیے یہ سب ہوا۔

احمد فرہاد بازیابی کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کردیا

مئی میں 44 دہشتگردوں کو گرفتار کیا، سی ٹی ڈی پنجاب

اسلام آباد: حقیقی آزادی مارچ کے 2 مقدمات میں عمران خان، شاہ محمود قریشی بری