پاکستان

مالی سال 24-2023 کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 2.38 فیصد ریکارڈ

تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی، زراعت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 24-2023 کے دوران اقتصادی ترقی کی شرح 2.38 فیصد رہی، تجارتی اور جاری کھاتوں کے خسارے میں نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی جبکہ زراعت کے شعبہ میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی جو گزشتہ 19 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

جاری مالی سال کے لیے پاکستان اقتصادی سروے کی رپورٹ منگل کو وفاقی وزیر خزانہ و محصولات سینیٹر محمد اورنگزیب نے جاری کی جس میں اہم اور کلیدی شعبوں میں ہونے والی پیشرفت کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اقتصادی سروے کے مطابق مالی سال 24-2023 کے دوران پاکستان میں بین الاقوامی اداروں کے اندازوں کے برعکس جی ڈی پی کی شرح میں 2.38 فیصد کی نمو ریکارڈ کی گئی ہے جبکہ زراعت کے شعبے میں مجموعی طور پر 6.25 فیصد کی شرح سے ترقی ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ 19 برسوں میں سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

سروے کے مطابق صنعتی ترقی کی شرح 1.21 فیصد اور جی ڈی پی کے تناسب سے سرمایہ کاری کی شرح میں 13.1 فیصد کا اضافہ ہوا،جی ڈی پی کے تناسب سے بچتوں کی شرح 13 فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ فی کس آمدنی 11 فیصد کے اضافہ کے بعد 1680 ڈالر فی کس سالانہ تک پہنچ گئی جس میں جاری مالی سال کے دوران مجموعی طور پر 129 ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

موجودہ مارکیٹ شرح کے مطابق پاکستان کی جی ڈی پی کا حجم ایک لاکھ 6ہزار 45ارب روپے ہے، مالی سال کے دوران جاری اخراجات کے حجم میں 33.4 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 12.33 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق زراعت کے شعبہ میں شرح نمو 6.25 فیصد ریکارڈ کی گئی جس میں فصلوں کی پیداوار میں 11.03 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی، زرعی قرضوں کی فراہمی میں 33.8 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ لائیو اسٹاک کے شعبے میں 13.89 فیصد کا اضافہ ہوا۔

کھادوں کی کھپت کا حجم 3ہزار 957 ٹن ریکارڈ کیا گیا جبکہ سرٹیفائیڈ بیجوں کی دستیابی کا حجم 642.5 ٹن ریکارڈ کیا گیا۔

بڑی صنعتوں کی پیداوار میں جاری مالی سال کے دوران سالانہ بنیادوں پر 0.1 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی جہاں ٹیکسٹائل کے شعبے میں 8.3 فیصد کی کمی دیکھنے میں آئی لیکن اس کے برعکس اپیرل میں 5.4 فیصد، فرنیچر 23.1 فیصد، چمڑے کی مصنوعات 5.3 فیصد، کھاد سازی 16.4 فیصد، فارماسیوٹیکل 23.2 فیصد اور کان کنی کے شعبہ میں 4.9 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا۔

ٹیکس محاصل میں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں 29.3 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی اور ٹیکس محصولات کا حجم 7.26 ٹریلین ریکارڈ کیا گیا، نان ٹیکس ریونیو میں 90.7 فیصد کی شرح سے ترقی ہوئی۔

ترقیاتی اخراجات 14.2 فیصد کے اضافے کے بعد 1.16 ٹریلین روپے ہو گئے اور جی ڈی پی کے تناسب سے مالی خسارے کی شرح 3.7 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ سال کے برابر ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے پرائمری سرپلس میں 1.5 فیصد کی شرح سے نمو ریکارڈ کی گئی۔

اقتصادی سروے کے مطابق جولائی سے اپریل تک کی مدت میں پالیسی ریٹ 22 فیصد ریکارڈ کیا گیا اور ایک روز قبل اس میں ڈیڑھ فیصد کی کمی کی گئی۔

مجموعی غیر ملکی اثاثوں کا حجم 530 ارب روپے رہا، مجموعی اندرونی اثاثوں کا حجم 1687 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا اور نجی شعبے کو 188 ارب روپے کا قرضہ فراہم کیا گیا۔

اسٹاک مارکیٹ کی بات کی جائے تو جولائی سے مارچ تک کی مدت میں کے ایس ای 100انڈیکس میں 61.6 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ مالی سال کے آخری ماہ میں یہ 74 ہزار کی نفسیاتی حد کو عبور کر گیا ہے، مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں 48.3 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور اس کا مجموعی حجم 9 ہزار 447.7 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں متحرک فنڈ کا حجم 18.9 ارب روپے رہا، نئی کمپنیوں کی رجسٹریشن کا حجم 20ہزار 810 ریکارڈ کیا گیا جبکہ اشیا کی خریداری کے معاہدوں کا حجم 4.08 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔

مالی سال کے دوران مئی 2024 میں افراط زر کی شرح 11.8 فیصد تک گر گئی جو مئی 2023 میں 38 فیصد کی بلند ترین سطح پر تھی جبکہ صارفین کے لیے قیمتوں کا اشاریہ 24.5 فیصد رہا جو گزشتہ مالی سال میں 29.2 فیصد تھا۔

شہری علاقوں میں جاری مالی سال کے دوران مہنگائی کی شرح 25.1 فیصد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کے دوران 26.8 فیصد تھی جبکہ شہری علاقوں میں اشیائے خورونوش کی افراط زر کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 37.7 فیصد سے کم ہو کر 24.2 فیصد ہو گئی۔

دیہی علاقوں میں اشیائے خورونوش کی افراط زر کی شرح گزشتہ سال کے مقابلے میں 41.1 فیصد سے گر کر 23.7 فیصد کی سطح پر آ گئی، بنیادی طور پر شہری علاقوں میں افراط زر کی شرح 16.4 فیصد اور دیہی علاقوں میں 23.3 فیصد ریکارڈ کی گئی۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق جولائی سے اپریل تک کی مدت کے دوران جاری کھاتوں کا خسارہ 0.2 ارب ڈالر رہا، برآمدات میں 25.7 فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا، درآمدات میں 43.4 فیصد کی کمی ہوئی، تجارتی خسارے میں مجموعی طور پر 17.7 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی، براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 1.5 فیصد کا اضافہ ہوا جبکہ ترسیلات زر کی صورتحال بھی بہتر رہی۔

قومی اقتصادی سروے کے مطابق مارچ کے اختتام تک مجموعی سرکاری قرضوں کا حجم 67 ہزار 525 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، اندرونی قرضوں کا حجم 43 ہزار 432 ارب روپے اور بیرونی قرضوں کا حجم 24093 ارب روپے ریکارڈ کیا گیا، اسی طرح ٹریژری بلوں میں کمی کا حجم 0.8 ٹریلین روپے ریکارڈ کیا گیا۔

تعلیمی شعبہ پر مجموعی قومی پیداوار کے تناسب سے 1.5 فیصد کے اخراجات آئے، مردوں میں شرح خواندگی 73.4 فیصد اور خواتین میں 51.9 فیصد رہی، ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد 263 ہے جس میں سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد 154 اور نجی یونیورسٹیوں کی تعداد 109 ہے۔

اعلیٰ تعلیم کے لیے 69.7 ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گئے اور فیکلٹی ممبران میں پی ایچ ڈیز کی تعداد 35.40 فیصد ہے۔

مالی سال 2023 کے جی ڈی پی کے تناسب سے پبلک ہیلتھ اخراجات کی شرح ایک فیصد ریکارڈ کی گئی، سرکاری شعبے کے ترقیاتی پروگرام کے تحت پبلک ہیلتھ کے لیے 25.3 ارب روپے مختص کیے گئے جہاں ملک میں ہسپتالوں کی تعداد 1ہزار 284 اور بنیادی مراکز صحت کی تعداد 5ہزار 520 ریکارڈ کی گئی۔

اقتصادی سروے کے مطابق 2023 میں ملک کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 15 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، دیہی علاقوں میں 14 کروڑ 77 لاکھ 50 ہزار افراد اور شہری علاقوں میں 9 کروڑ 37 لاکھ 50 ہزار افراد رہتے ہیں۔

2021 کے لیبر فورس سروے کے مطابق بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد ہے جبکہ سال 2023 میں بیرون ملک جانے والی رجسٹرڈ افرادی قوت 8 لاکھ 62 ہزار 625 ہے۔

قومی اقتصادی سروے میں توانائی کے شعبہ کا بھی احاطہ کیا گیا جس کے مطابق ملک میں مارچ کے اختتام تک بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت 42 ہزار 181 میگاواٹ ہے جبکہ مجموعی جنریشن 92ہزار 91 گیگاواٹ آورز ہے، جولائی سے مارچ تک بجلی کی مجموعی کھپت کا حجم 68 ہزار 559 گیگاواٹ آورز ریکارڈ کیا گیا۔