پاکستان

کم قیمت کا خدشہ: کاشتکار کپاس کی جگہ ’منافع بخش‘ فصلوں کی طرف متوجہ

بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنز پر مشتمل ’پنجاب کی کاٹن ویلی‘ میں گزشتہ سال اور اس سال کے خریف سیزن کے کاشت کے اعداد و شمار میں فرق سب سے زیادہ ہے۔

کپاس کے کاشتکار اپنی فصل کی کم قیمتوں اور حکومتی تعاون کی کمی سے مایوس ہو کر متبادل فصلوں کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں کاشت کا رقبہ اور پیداوار کم ہو رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بہاولپور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنز پر مشتمل ’پنجاب کی کاٹن ویلی‘ میں گزشتہ سال اور اس سال کے خریف سیزن کے کاشت کے اعداد و شمار میں فرق سب سے زیادہ ہے۔

پنجاب کراپ رپورٹنگ سروس (سی آر ایس) کے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ کپاس 40 لاکھ ایکڑ پر بوائی کا ہدف حاصل نہیں کرپائی اور 2024 کے خریف سیزن میں اس کی کاشت 19 فیصد کمی سے 32 لاکھ 20 ہزار ایکڑ رہ گئی۔

کپاس کی کُل کاشت کا رقبہ گزشتہ سیزن کے 41 لاکھ 50 ہزار ایکڑ سے 32 فیصد کم تھا۔ اس سیزن میں کپاس کے کاشت کے رقبے میں کمی جولائی 2023 سے مارچ 2024 کے دوران بمپر فصل کے باوجود دیکھنے میں آئی ہے۔

رواں ہفتے کے شروع میں جاری ہونے والے پاکستان اقتصادی سروے کے عبوری اعداد و شمار کے مطابق کپاس کی پیداوار گزشتہ مالی سال میں 49 لاکھ 10 ہزار گانٹھوں سے دگنی سے بڑھ کر ایک کروڑ 2 لاکھ گانٹھوں تک پہنچ گئی ہے۔

سال 2019 اور 2022 کے درمیان تین سالوں میں کمی کے بعد مالی سال 2024 کے پہلے نو ماہ میں کپاس کے کُل کاشت کے رقبے میں بھی مسلسل دوسرے سال اضافہ ہوا۔

سروے کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 24-2023 میں، کپاس کی فصل 24 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر پر کاشت کی گئی، جو کہ 23-2022 میں 21 لاکھ 40 ہزار ہیکٹر سے 13.1 فیصد زیادہ ہے۔

کپاس کے نقصان سے دوسری فصلوں کا فائدہ

اس سیزن کے کم ہوتے ہوئے کاشت کے رقبے سے کپاس کی فصل کی مجموعی پیداوار متاثر ہونے کی توقع ہے جو کہ بنیادی خام مال کے طور پر کپاس پر منحصر ٹیکسٹائل سیکٹر کو نقصان پہنچائے گی۔

پاکستان اقتصادی سروے کے مطابق، پچھلے سال کی اسی مدت میں 16 فیصد کمی کے بعد اس شعبے نے پہلے ہی جولائی تا مارچ 2024 کے دوران 8.3 فیصد کا زبردست سکڑاؤ دیکھا ہے۔

کپاس کے کاشتکار اب زیادہ منافع بخش فصلوں کا انتخاب کر رہے ہیں جن کی پیداواری لاگت کپاس کی طرح زیادہ نہیں ہے۔

پنجاب میں کپاس کے بنیادی علاقے بہاولپور ڈویژن میں کاشتکار تِل اور چاول کا انتخاب کر رہے ہیں۔

تِل کا مجموعی رقبہ گزشتہ سال 9 لاکھ ایکڑ سے بڑھ کر اس سیزن میں 17 لاکھ ایکڑ ہو گیا، جو کہ 82.9 فیصد کا اضافہ ہے۔

ڈویژن میں تِل کے مجموعی کاشت کے رقبے میں بھی 168 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا جو گزشتہ سال 57 ہزار 756 ایکڑ تھا، جو اس سیزن میں بڑھ کر ایک لاکھ 54 ہزار 974 ایکڑ ہو گیا۔

اسی طرح صوبے میں اس سیزن میں چاول کی نرسریوں کی کاشت میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کا تخمینہ 50 لاکھ ایکڑ کے ہدف کے مقابلے میں 67 لاکھ 30 ہزار ایکڑ رقبہ رکھتا ہے۔

جنوبی پنجاب میں شجرکاری 81 ہزار 144 سے 13 فیصد بڑھ کر 93 ہزار 154 مرلے ہوگئی ہے، جو کہ 9 لاکھ 10 ہزار کے ہدف اور گزشتہ سال کے 11 لاکھ 70 ہزار ایکڑ کے مقابلے 13 لاکھ 70 ہزار ایکڑ اراضی پر دھان کی بوائی کے لیے کافی ہے۔

سی آر ایس کے ڈی جی ڈاکٹر عبدالقیوم نے کہا کہ بیج کپاس (پھٹی) کی پیداواری لاگت گزشتہ سیزن مارکیٹ گیٹ پر ایک لاکھ 16 ہزار 930 روپے فی ایکڑ سے بڑھ کر اس سال ایک لاکھ 46 ہزار 413 روپے ہوگئی ہے۔ پیداوار کی بڑھتی ہوئی لاگت کے مطابق سی آر ایس نے کپاس کے بیج کی اپنی تجویز کردہ قیمت گزشتہ سیزن کے 8 ہزار 858 روپے سے بڑھا کر 9 ہزار 243 روپے فی 40 کلوگرام کردی ہے۔

حکومت نے گزشتہ سال روئی کے بیج کی ساڑھے 8 ہزار روپے فی 40 کلو گرام مداخلتی قیمت مقرر کی تھی، جس میں کاشتکاروں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ انہیں ان کی فصل کی کم از کم قیمت ملے گی۔

تاہم ضلع رحیم یار خان کے کپاس کے کاشتکار محمد عظیم نے کہا کہ حکومت ’اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی‘ اور اس نے کپاس کے بیج خریدنے اور مارکیٹ کو مستحکم کرنے کے لیے ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کو متحرک نہیں کیا۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس بے عملی کے نتیجے میں قیمتیں 7 ہزار روپے فی 40 کلو گرام سے بھی نیچے آگئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پچھلے سیزن میں کپاس کی کم قیمت کو دیکھتے ہوئے، میرے جیسے بہت سے کاشتکاروں نے اس سال یہ فصل نہ اگانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔‘