نقطہ نظر

گلگت بلتستان کے دلکش رنگ: کھرفوچو پر ہائیکنگ اور نانگ ژھوق کی سیر (چوتھی قسط)

کھرفوچو آنے سے قبل ہمارے ذہن میں یہاں کی جو تصویر بنی ہوئی تھی، یہ مقام بالکل اس کے برعکس تھا۔

اس سلسلے کی دیگر اقساط یہاں پڑھیے۔


منٹھوکھا اور خموش آبشار کے ’یادگار‘ سفر کے بعد ہونے والی تھکن کی وجہ سے ہم نے ایک روز کا وقفہ لیا۔ اب ہماری اگلی منزل کھرفوچو قلعہ اور نانگ ژھوق گاؤں (Organic valley) تھی۔ ان دونوں مقامات پر ہم نے پیدل سفر کرنا تھا، اس لیے ہم نے اسی مناسبت سے اپنی تیاری کی اور سفر پر روانہ ہوگئے۔

کھرفوچو اور نانگ ژھوق جانے کے لیے ہمیں اسکردو بازار قتل گاہ یا پھر حسینی چوک شاہین گراؤنڈ سے قبل بائیں جانب سڑک سے گزرنا ہوتا ہے جبکہ یہاں جانے کا راستہ چھومک نامی علاقے سے بھی ہے۔ ہم نے بازار تک تو بہ ذریعہ گاڑی سفر کیا پھر اس کے بعد ہمارا پیدل سفر شروع ہوا۔

کھرفوچو کا قلعہ اسکردو میں موجود پہاڑ کے اوپر واقع ہے جہاں جانے کے لیے ہائیکنگ کرنا ہوتی ہے، اسی لیے یہاں جانے کے لیے مکمل تیاری کرنا ہوتی ہے۔ یہاں کا راستہ انتہائی خراب ہے اور ایک وقت میں ایک شخص ہی یہاں سے گزر سکتا ہے۔ یہاں ذرا سی غلطی جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں جانے کے لیے مضبوط گرفت والے جوتے، ایسے کپڑےجو چڑھتے ہوئے کسی جگہ نہ اٹکیں، لاٹھی اور ساتھ ہی کھانے پینے کی بھی اشیا ساتھ ہونا ضروری ہیں کیونکہ اونچائی پر چڑھتے ہوئے تھکان کافی ہوجاتی ہے۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے پانی کی بوتلیں، جوتوں کا اضافی جوڑا، موزے اور ایک لاٹھی ساتھ رکھی اور ہائیکنگ کا آغاز کیا۔ اور ایک گھنٹے پُرخطر راستوں سے گزرتے ہوئے، تھوڑی تھوڑی دیر کا وقفہ لے کر بلآخر ہم اوپر پہنچ گئے۔

یہاں آنے سے قبل ہمارے ذہن میں یہاں کی جو تصویر بنی ہوئی تھی، یہ مقام بالکل اس کے برعکس تھا کیونکہ یہاں دیگر مقامات کی کوئی خاص سیاحتی انتظامات نہیں تھے نہ ہی مرکزی داخلی راستے پر دیواروں کی حالت زار اچھی تھی۔ بس ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے اس مقام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اس قلعے کے عقب میں نانگ ژھوق گاؤں جبکہ ایک جانب دریائے سندھ کا بہتا پانی جبکہ دوسری جانب اسکردو شہر کا خوبصورت نظارہ ہمارا منتظر تھا۔

کھرفوچو ایک تاریخی قلعہ ہے۔ مقپون خاندان کے نامور راجا بوخا مقپون نے 1490ء سے 1515ء کے درمیان یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا۔ مقپون خاندان کے بعد دیگر حکمرانوں نے اس قلعے میں اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلی کی۔ کہا جاتا ہے کسی زمانے میں اس قلعے کو فتح کرنا ناممکن تھا۔ ماضی میں بہت سی جنگوں میں اسے فتح کرنے کے لیے حملے کیے گئے لیکن تمام حملے ناکام رہے۔ 108 سالوں تک یہ قلعہ ڈوگرہ افواج کے زیرِ استعمال رہا اور انہوں نے بھی اپنی ضرورت کے مطابق تبدیلی کرکے اسے دوبارہ تعمیر کیا۔

1948ء میں آزادی کی تحریک چلی اور گلگت اسکاوٹس اور بلتی مجاہدین نے جدید ہتھیاروں سے لیس ڈوگرہ افواج کو پسپا کیا اور یہ قلعہ فتح کیا۔ یہ قلعہ اسکردو کی پہچان ہے۔ اس قلعے کے چاہنے والوں کے لیے اس کا ہر ذرہ معتبر ہے۔ قلعے کی دیوار پر انگریزی حروف میں لکھا ’KHARPHOCHO‘ جوکہ نیچے اسکردو بازار سے ہی نظر آجاتا ہے۔

ہم نے سنا تھا کہ اس قلعے میں ایک ایسا کنواں موجود ہے جہاں اس دور کے راجا، لوگوں کو سزا دینے کے لیے پھینکا کرتے تھے۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے یہ جاننے کے لیے ہم نے وہاں موجود ایک معتبر شخص سے دریافت کیا تو انہوں نے کچھ ایسی ہی ملتی جلتی کہانی سنائی اور وہ مقام بھی دکھایا لیکن جس مقام پر کنواں موجود ہے، حکومت نے اسے بند کیا ہوا ہے۔

قلعے کی اندرونی دیوار انتہائی مضبوط لگ رہی تھیں۔ قلعے میں ایک جانب راجا کی قیام گاہ، کمرے اور غسل کے لیے حمام جبکہ دوسری جانب مسجد بنی ہوئی ہے۔ قلعے میں تعینات شخص نے بتایا کہ قلعے کی حالت بہتر بنانے کے لیے مقامی انتظامیہ اقدامات کررہی ہے۔ ہم نے بھی اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ حکومت کو اس تاریخی مقام کی تزین و آرائش کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں تاکہ اس تاریخی ورثے کو محفوظ کیا جاسکے۔

ہم نے کچھ دیر یہاں رک کر ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور قلعے کا جائزہ لیا۔ قلعے کی یادوں کو اپنی ٹریول ڈائری میں محفوظ کرنے کے بعد ہم نے اپنی اگلی منزل نانگ ژھوق (Organic valley) کی جانب جانے کے لیے واپسی کا سفر شروع کیا۔ واپسی پر ہمیں پوری پہاڑی سے نیچے آنے کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ پہاڑ کے درمیان سے ہی نانگ ژھوق کی طرف جانے کا راستہ بنا تھا اور ہم نے وہی راستہ اپنایا۔

یہ راستہ بہت خطرناک ہے کہ اگر غلطی سے آپ کا پیر پھسل جائے تو آپ دریائے سندھ میں گر سکتے ہیں۔ ایک جانب دریائے سندھ کا خوبصورت نظارہ تھا جبکہ دوسری طرف نیچے گر جانے کا خوف، گویا ایک دلچسپ و عجیب کیفیت ہم پر طاری تھی۔ تقریباً 15 منٹ پہاڑی راستے پر پیدل چلنے کے بعد ایک مقام آیا جسے دیکھ کر ہمارے قدم جم گئے۔

یہاں لکڑیوں سے بنا ایک پل تھا جو ایک پہاڑ کو دوسرے سے ملا رہا تھا۔ لکڑی کا یہ پل خطرناک تھا۔ میں اس لمحے سوچ رہا تھا کہ اس خوبصورت منظر کا لطف اٹھاؤں یا اس پُرخطر راستے سے گزرنے کا خوف محسوس کروں۔ خوف کو ایک جانب رکھ کر میں اور میرے دوستوں آہستہ آہستہ اس پل سے گزرے۔ جس کے بعد ہم نے مزید 20 سے 25 منٹ پیدل سفر کیا اور اپنی منزل نانگ ژھوق پہنچ گئے۔

نانگ ژھوق جانے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک پہاڑی جہاں سے ہم پیدل چل کر آئے اور ایک راستہ دریا سے گزرتا ہے جہاں سے نانگ ژھوق جاسکتے ہیں لیکن یہ وہاں سے واپسی کا راستہ نہیں۔ یہ واپسی کا راشتہ اس لیے نہیں کیونکہ یہاں دریا کا بہاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔

یہ گاؤں انتہائی خوبصورت اور قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ یہاں تقریباً 100 لوگ آباد ہیں۔ میں نے مشاہدہ کیا کہ یہاں کے لوگ انتہائی مہمان نواز اور خوش اخلاق ہیں۔ گاؤں کے باسی زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں جبکہ یہاں کی آبادی انتہائی کم ہونے کی وجہ سے منتخب نمائندے بھی یہاں اس گاؤں پر توجہ نہیں دیتے۔

تعلیمی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے اس گاؤں کے بچےاور بچیاں تعلیم کے حصول کے لیے پُرخطر راستوں پر گھنٹوں پیدل سفر کرکے اسکردو شہر جاتے ہیں۔ طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بیماروں کو کندھے پر اٹھا کر انہیں خطرناک راستوں سے اسکردو لایا جاتا ہے۔

یہاں کے حسن کی بات کی جائے تو ہر طرف ہریالی، شہتوت اور خوبانی سمیت مختلف قسم کے پھلوں کے درخت موجود ہیں۔ یہاں پہنچنے کے بعد ہم نے نہر کے پاس درخت کی چھاؤں میں بیٹھ کر تھوڑا آرام کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مقام سمیت پورے بلتستان میں ہمیں کسی نے بھی درخت سے پھل توڑنے سے منع نہیں کیا۔ یہاں پر بھی ہم نے شہتوت درخت سے توڑا، نہر میں دھویا اور پھر وہیں بیٹھ کر کھانے لگے۔ کچھ دیر مزید آرام کے بعد ہم نے علاقے کی سیر شروع کی۔

ایک جانب دریا کا بہتا پانی اور دوسری جانب ہریالی اور خوبصورت نظارے، قدرت کا کرشمہ تھا۔ یہاں مقامی لوگوں سے ہماری بات چیت بھی ہوئی جنہوں نے ہمیں خوش آمدید کہا اور اپنے علاقے سے متعلق بہت سی باتیں بتائیں جن میں کچھ باتوں کا ذکر کرنا میں یہاں ضروری سمجھتا ہوں۔ انہوں نے ہمیں وہاں پر بجلی کی پیداوار سے متعلق بتایا کہ وہ اپنے علاقے کے لیے بجلی خود بناتے ہیں اور اپنی بجلی کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ پہاڑوں سے آنے والے پانی سے بجلی بنا کر اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

ساتھ ہی مقامی لوگوں نے پانی سے چلنے والی چکی کا بھی ذکر کیا اور ہمیں وہ دکھائی بھی کہ کیسے پانی کے بہاؤ سے چکی چلتی ہے۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں نے سہولیات کے فقدان سے متعلق بھی بتایا کہ کسی بھی طرح کی ہنگامی صورتحال میں انہیں مشکلات پیش آتی ہیں۔ یہاں کے باسیوں نے حکومت سے مطالبہ بھی کیا کہ وہ یہاں ایک استاد تعینات کرے جو یہاں کے بچوں کو علم سے روشناس کرے۔ ساتھ ہی حکومت یہاں ایک ڈسپنسری قائم کرے تاکہ یہاں کے لوگوں کے ساتھ ساتھ یہاں آنے والے سیاحوں کو بھی طبی سہولیات فراہم کی جاسکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے یہاں آنے جانے کے لیے گاڑیوں کا راستہ بنانے کا بھی مطالبہ کیا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ یہاں آنے کا دوسرا راستہ دریائے سندھ سے گزرتا ہے۔ اس راستے کو اپناتے ہیں تو بہ ذریعہ کشتی آپ کو دریا پار کرکے یہاں آنا پڑے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں پر دیسی کشتیوں کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ موٹر سے چلنے والی کشتیاں یہاں موجود نہیں اور دیسی کشتیاں یہاں کے رہائشی خود بناتے ہیں۔

اس کشتی کو مقامی زبان میں ’ذحخ‘ کہا جاتا ہے جسے دلچسپ طریقے سے تیار کیا جاتا ہے۔ اسے لکڑی، بکرے کی کھال اور مخصوص قسم کی رسی سے بنایا جاتا ہے۔ اسے تیار کرنے کے لیے مہارت انتہائی ضروری ہے۔ یہ لوگ مختلف سائز کی دیسی کشتیاں بناتے ہیں جنہیں سامان کی ترسیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لکڑی کی مدد سے چلائی جانے والی یہ کشتی اسی جانب چلتی ہے جس جانب پانی کا بہاؤ ہو اور پانی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے یہ مخالف سمت میں نہیں چل پاتی اسی لیے نانگ ژھوق سے دریا سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ کشتی ایک دفعہ ہی سامان لے کر جاتی ہے جس کے بعد اس کشتی کو کھول کو لکڑی، بکرے کی کھال اور رسیوں کو کندھے لاد کر پہاڑی راستے سے واپس لایا جاتا ہے۔ پھر وہ دوبارہ کشتی بناتے ہیں اور یوں بار بار کشتیاں بناتے اور انہیں توڑتے ہیں۔

ہم نے اس خوبصورت مقام پر کچھ وقت گزارنے کے بعد دریائے سندھ کا بھی نظارہ کیا۔ کھانے پینے کا اہتمام کیا اور اس کے بعد ہم خوبصورت یادیں لے کر شام سے پہلے واپسی کے سفر پر روانہ ہوگئے کیونکہ پہاڑی راستے سے واپس آنا تھا اور رات کی تاریکی میں خطرناک پہاڑ پر پیدل سفر انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ اس لیے سورج غروب ہونے سے پہلے ہم نے واپسی کی راہ لی۔

تھکاوٹ کی وجہ سے ہم وقفہ لیتے لیتے اپنی قیام گاہ واپس آئے۔ یہ سفر انتہائی خطرناک لیکن یہ یادگار بھی رہا۔ ایڈونچر کے شوقین افراد کے لیے یہ ایک بہترین سیاحتی مقام ہے۔ اگلے روز ہم نے شگر فورٹ، شگر گاؤں، کولڈ ڈزرٹ اور جربا ژھو (بلائنڈ لیک) کی سیاحت کی جہاں ہم نے ٹھنڈے یخ پانی میں ڈپکی بھی لگائی جس کی روداد اگلی قسط میں سنائیں گے۔

منتظر ایوب

لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر بھی ہیں۔ انہیں ٹوئٹر اور انسٹاگرام imuntazirayub@ پر فالو کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔