کھیل

کے ٹو سر کرنے کی مہم میں بیمار پڑنے والی کوہ پیما ثمینہ بیگ کو بیس کیمپ سے نکال لیا گیا

ہیلی کاپٹر نہ آنے پر ثمینہ بیگ کو انسانی مدد اور گھوڑے کی معاونت سے کے ٹو بیس کیمپ سے نکالنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا، بھائی محبوب علی

دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے۔ٹو کو سر کرنے کی مہم کے دوران بیمار پڑنے والی پاکستان کی ریکارڈ ساز معروف کوہ پیما ثمینہ بیگ کو ہفتے کے روز بیمار ہونے کے بعد بیس کیمپ سے نکال لیا گیا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وادی شمشال سے تعلق رکھنے والی ثمینہ بیگ دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ اور کے۔ٹو کو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون کوہ پیما ہیں۔

وہ نانگا پربت کے ساتھ ساتھ سات براعظموں میں سات چوٹیاں سر کرنے کا بھی دعویٰ کرتی ہیں۔

فی الحال، ثمینہ بیگ پاکستان اور اٹلی کی خواتین کی آٹھ رکنی کے۔ٹو مہم کا حصہ تھیں۔

ایگوسٹینا دا پولینزا اور ثمینہ بیگ کی زیر قیادت ٹیم میں دونوں ممالک سے چار چار ارکان شامل ہیں اور اس مہم کے لیے یہ ٹیم 28 جون کو کے ٹو بیس کیمپ پہنچی تھی۔

ثمینہ بیگ کے بھائی محبوب علی نے ڈان کو بتایا کہ ٹیم کے ارکان بیس کیمپ میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اسی دوران ان کی بہن شدید بیمار ہوگئیں اور انہیں سانس لینے میں شدید دشواری ہونے لگی۔

انہوں نے بتایا کہ اطالوی ڈاکٹروں نے ثمینہ کا علاج کیا اور انہیں دوائیاں دیں لیکن اس کے باوجود ان کی حالت بگڑ گئی۔

محبوب علی نے بتایا کہ مہم کے منتظمین نے آرمی ایوی ایشن حکام سے درخواست کی کہ وہ ثمینہ کو اسکردو لے جانے کے لیے ایک ہیلی کاپٹر فراہم کریں کیونکہ بیس کیمپ سے اسکردو تک ایک ہفتے کا سفر ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم تین دن تک ہیلی کاپٹر کا انتظار کرتے رہے تاکہ انخلا یقینی بنایا جا سکے، پاکستان میں سروس فراہم کرنے والا واحد ادارہ عسکری ایوی ایشن انخلا کے لیے تمام تقاضے پورے کرنے کے باوجود موسمی حالات کی وجہ سے ریسکیو آپریشن نہیں کر سکا۔

جمعہ کو ایک ڈاکٹر نے ثمینہ بیگ کی حالت کا جائزہ لیا اور بتایا کہ ان کی حالت تیزی سے بگڑ رہی ہے۔

معروف کوہ پیما کے بھائی نے کہا کہ ٹیم کو انسانی مدد اور گھوڑے کی معاونت سے اس مقام سے نکالنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ثمینہ کو سانس لینے میں مدد فراہم کرنے کے لیے بوتل بند آکسیجن فراہم کی گئی۔

یہ ٹیم ہفتہ کو کنکورڈیا پہنچی اور توقع ہے کہ وہ اتوار کو پیو پہنچ جائے گی۔

محبوب علی نے مزید بتایا کہ عام طور پر اسکردو پہنچنے میں ایک ہفتہ لگتا ہے لیکن ٹیم دن رات پیدل چل رہی ہے تاکہ ثمینہ بیگ کو جلد از جلد طبی امداد کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔