پاکستان

شفاف ٹرائل کے بغیر ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا، سپریم کورٹ کی تحریری رائے

جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی، ملک اور اس کی عدالتیں مارشل لا کے زیر تسلط تھیں، تحریری فیصلہ

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنی تفصیلی تحریری رائے میں کہا ہے کہ ٹرائل کورٹ اور اپیلیٹ کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو منصفانہ اور شفاف ٹرائل کا موقع فراہم نہیں کیا اور شفاف ٹرائل کے بغیر معصوم شخص کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی پر سپریم کورٹ نے 48 صفحات پر مشتمل تفصیلی رائے تحریر کردی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ تفصیلی رائے تحریر کی جس میں کہا گیا کہ صدر آصف علی زرداری کی جانب سے 2011 میں یہ ریفرنس سپریم کورٹ بھیجا گیا جس میں 5 مختلف سوالات پوچھے گئے۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ 11 سال تک مقدمے پر سماعت نہ ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے اس ریفرنس پر لارجر بینچ بنانے کا فیصلہ کیا۔

رائے میں کہا گیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے اپنے بنیادی فریضے کی انجام دہی کے دوران ہم ججز تمام لوگوں کو قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے پابند ہیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہماری عدالتی تاریخ میں کچھ ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے عوام میں یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ خوف یا کسی کی حمایت قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے ہمارے فرائض کی انجام دہی میں آڑے آئی لہٰذا ہمیں اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کا خود احتسابی کے جذبے کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انصاف کی فراہمی غیر متزلزل دیانتداری اور قانون کے تئیں وفاداری کے ساتھ کی جائے گی۔

رائے میں مزید کہا گیا کہ جب تک ہم اپنی ماضی کی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتے تب تک ہم خود کو درست نہیں کر سکتے اور صحیح سمت کی جانب گامزن نہیں ہو سکتے۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت مشاورتی دائرہ کار اس عدالت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم صدر کی جانب سے بھیجے گئے عوامی اہمیت کے حامل قانون کے کسی بھی سوال پر رائے دیں۔

اس میں کہا گیا کہ ہم سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ٹرائل کورٹ (لاہور ہائی کورٹ) اور اپیل کورٹ (سپریم کورٹ) کی جانب سے مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے تقاضے پورے کیے گئے؟، اس سوال سے ہم رجوع کرتے ہیں اور اس بات پر غور کرتے ہیں کہ آیا ٹرائل کورٹ اور اپیل کورٹ نے مناسب عمل اور منصفانہ ٹرائل کے تقاضوں کو پورا کیا اور ان سے نمٹا یا نہیں۔

صدر پاکستان کے دائر کردہ ریفرنس نے ہمیں فوجی آمر جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے، سزا اور موت کی سزا کی کارروائی پر غور کرنے کا موقع فراہم کیا، یہ ریفرنس ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ سیاسی جماعت کی حکومت کے دوران دائر کیا گیا تھا لیکن دوسری بڑی سیاسی جماعتوں کی آنے والی حکومتوں نے اس انکوائری کو آگے بڑھایا اور ریفرنس واپس لینے کا فیصلہ نہیں کیا۔

تفصیلی رائے میں عدالت سے کیے گئے پانچ سوالات کے جواب میں کہا گیا کہ لاہور ہائی کورٹ کی مقدمے کی کارروائی اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں کی گئی اپیل میں منصفانہ ٹرائل کے بنیادی حق اور آئین کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔

اس سلسلے میں کہا گیا کہ آئین اور قانون اس فیصلے کو ایک طرف رکھنے کا کوئی طریقہ کار فراہم نہیں کرتے اور عدالت کی طرف سے نظرثانی کی درخواست خارج کرنے کے بعد یہ فیصلہ حتمی شکل اختیار کر گیا تھا۔

حوالہ شدہ سوالات میں اس عدالت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بیان کردہ قانون کے اصول کی وضاحت نہیں کی گئی جس کے بارے میں ہماری رائے طلب کی گئی ہے۔ لہٰذا اس بات کا جواب نہیں دیا جا سکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بیان کردہ قانون کے کسی اصول سے اختلاف کیا گیا یا اسے رد کیا گیا۔

عدالت نے اپنی رائے میں کہا کہ آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت اپنے مشاورتی دائرہ اختیار میں عدالت شواہد کا دوبارہ جائزہ یا کیس کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی البتہ ہم اپنی تفصیلی وجوہات میں منصفانہ ٹرائل کی راہ میں حائل ہونے والی بڑی آئینی اور قانونی خامیوں کی نشاندہی کریں گے۔

رائے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جب کیس چلایا گیا اس وقت عدالتوں کی آئینی حیثیت ہی نہیں تھی اور جب کیس چلایا گیا اس وقت ملک میں مارشل لا تھا۔

تحریری فیصلے میں مزید لکھا گیا کہ ملک اور اس کی عدالتیں اس وقت مارشل لا کے زیر تسلط تھیں اور آمر کی وفاداری کا حلف اٹھانے والے جج کی عدالتیں عوام کی عدالتیں نہیں رہتیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے فیصلے کا براہ راست فائدہ اس وقت کے آمر اور صدر ضیا الحق کو ہوا کیونکہ اگر ذوالفقار بھٹو کو رہا کردیا جاتا تو وہ ضیا الحق کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلا سکتے تھے، ضیا الحق کی اپنی بقا بھی اسی فیصلے سے ممکن تھی بصورت دیگر ان کا اپنا اقتدار بھی خطرے میں پڑ جاتا۔

پس منظر

یاد رہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے کےخلاف اپریل 2011 میں ریفرنس دائر کیا تھا، صدارتی ریفرنس پر پہلی سماعت 2 جنوری 2012 کو ہوئی تھی جو اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی لارجر بینچ نے کی تھیں۔

تاہم حال ہی میں اس کیس کو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی زیر سربراہی 12 دسمبر کو 9 رکنی بینچ نے مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔

‏سابق وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو سے متعلق صدارتی ریفرنس 5 سوالات پر مبنی ہے، صدارتی ریفرنس کا پہلا سوال یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کے قتل کا ٹرائل آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق مطابق تھا؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟

یہ ہے کہ کیا ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے کا سپریم کورٹ کا فیصلہ عدالتی نظیر کے طور پر سپریم کورٹ اور تمام ہائی کورٹس پر آرٹیکل 189 کے تحت لاگو ہوگا؟ اگر نہیں تو اس فیصلے کے نتائج کیا ہوں گے؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانا منصفانہ فیصلہ تھا؟ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت سنانے کا فیصلہ جانبدار نہیں تھا؟

چوتھے سوال میں پوچھا گیا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کو سنائی جانے والی سزائے موت قرآنی احکامات کی روشنی میں درست ہے؟

جبکہ پانچواں سوال یہ ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف دیے گئے ثبوت اور گواہان کے بیانات ان کو سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟