پاکستان

عمران خان کی ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈالنے پر جیل حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ

کسی کو کوئی دستاویز دیکھنے سے نہیں روک سکتے، یہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے، جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جیل ملاقاتوں میں رکاوٹ ڈالنے پر اڈیالہ جیل حکام کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی کرنے کا عندیہ دے دیا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ میں بانی پی ٹی آئی عمران خان کی وکلا سے ملاقاتوں کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے کیس کی سماعت کی، سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل نے بانی پی ٹی آئی کی جیل ملاقاتوں کی فہرست جمع کروا دی۔

دوران سماعت عمران خان کے وکیل ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے عدالت سے کہا کہ ہمیں یہ فہرست دیکھنے دیں کہیں جیل سماعتوں کی ملاقاتوں کو تو اس میں شامل نہیں کر دیا گیا، ہمارے دونو‌ں اپوزیشن لیڈرز سمیت رہنماؤں کو 4 گھنٹے کھڑا رکھ کر ملاقات نہیں کرائی گئی، حالانکہ عدالت نے ہفتے میں 2 بار ملاقاتوں کا ایس او پی بنانے کا حکم دیا تھا۔

ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی مقدمات میں نمائندگی کرنے والے وکلا آتے ہی نہیں، سیاسی طور پر متحرک وکلا عمران خان سے ملاقات کے لیے آتے ہیں، جب کہ اڈیالہ جیل جانے والے افراد کا مطالبہ تھا کہ سب کی ایک ساتھ ملاقات کرائی جائے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے ریمارکس دیے کہ عمران خان پر 2 سو سے زائد مقدمات درج ہیں، یہ سب سیاسی نتائج والے ہی کیسز ہیں، آپ یہ دکھانا چاہ رہے ہیں کہ یہ سب حقیقی کیسز ہیں۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے کہا کہ مرکزی وکلا ملاقات کر کے ہدایات عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلا کو دیتے ہوں گے، ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ہماری گاڑیاں جیل سے ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے کھڑی کروا دی جاتی ہیں۔

وکیل نے کہا کہ عمران خان اور ملاقات کرنے والوں کے درمیان بڑا شیشہ لگا دیا گیا ہے، کوئی دستاویز لے دے نہیں سکتے، اونچا بولنا پڑتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق نے ریمارکس دیے کہ یہ بالکل بھی قابلِ قبول نہیں ہے، کوئی دستاویز دیکھنے سے نہیں روک سکتے، آئندہ ایسا کیا گیا تو میں توہینِ عدالت کے نوٹس جاری کروں گا، یہ انصاف کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے مترادف ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے کہا کہ عمران خان سے ملاقات کرنے والے بھی جیل حکام کی ایس او پیز پر عملدرآمد کریں، ایڈووکیٹ شعیب شاہین نے کہا کہ ہم کاغذ کا ٹکڑا لے جا سکتے ہیں نہ باہر لا سکتے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ ہم پھر بھی ان کو موقع دیتے ہیں، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کیا کہ یہ آپ کوئی احسان نہیں کر رہے، میں سمجھ نہیں پا رہا کہ آپ اس سب سے کیا حاصل کرنا چاہ رہے ہیں۔

بعد ازاں ،عدالت نے کیس کی سماعت 13 ستمبر تک ملتوی کر دی۔