پاکستان

میں نے جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی کال دی تھی، عمران خان کا اعتراف

انہوں نے ہمارے پرامن احتجاج کو بغاوت بنا دیا، ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لانے سے بہتر ہے یہ ملک میں سیدھا سیدھا مارشل لا لگا دیں، اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو

بانی پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے اہم تنصیبات کے سامنے احتجاج کی کال دینے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی کال دی تھی لیکن اس کو انہوں نے بغاوت بنا دیا۔

اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مجھ پر کیسسز ختم ہونا شروع ہوئے تو ان کا پلان ہے کہ مجھے ملٹری جیل بھیجا جائے اور رانا ثنااللہ اور احسن اقبال نے بیان دیا کہ مجھے جیل میں رکھا جائے۔

بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے کارکنان ملٹری جیل میں پڑے ہوئے ہیں، ان کا پلان ہے کہ مجھے بھی نو مئی کے مقدمات میں ملٹری جیل میں ڈالیں اورملٹری کورٹ لے کر جائیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اطلاعات عطا تارڑنے کہا ہے کہ میں جیل کے وی آئی پی کمرے میں ہوں، اگر عطا تارڑ سچ بول رہا ہے تو آ کر مجھ سے ملے، میڈیا دو منٹ کے لیے آ کر میرے کمرے کا دورہ کرے، ڈیتھ سیل اور دہشت گردی کے مقدمات میں گرفتار ملزمان کے سیل کی دیواریں میرے کمرے کے ساتھ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 8 فروری کو کور کرنے کے لیے جھوٹ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے، پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کی ریویو پٹیشن پر چیف جسٹس پاکستان کو بہت جلدی ہے، چیف جسٹس سے کہتا ہوں ہماری 25 مئی کے حوالے سے پٹیشن پر سماعت کیوں نہیں ہو رہی، سب کو پتا ہے کہ سپریم کورٹ میں اب یکطرفہ معاملہ چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ سرینہ عیسیٰ کے میرے خلاف بیانات سوشل میڈیا پر پڑے ہیں اور اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو ہمارے خلاف مقدمات نہیں سننے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں پرانے ملازم انعام شاہ اور کسٹم اپریزر کو وعدہ معاف گواہ بنایا گیا ہے، نیب نے ایک کروڑ 80 لاکھ کے ہار کی قیمت تین ارب 18 کروڑ روپے لگائی تھی، ہم نے 50 فیصد رقم ادا کر کے 90 لاکھ روپے میں ہار خریدا تھا جو ہمارے پاس موجود ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کے توشہ خانہ ریفرنسز کی سماعت کیوں نہیں ہو رہی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا ہے کہ نیب نئے کیس کے بعد کوئی نیا تحفہ لے کر آئے گا اور نو مئی کے مقدمات میں بھی میرے خلاف وعدہ معاف گواہ تیار کیے جا رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ وزیرآباد میں جب مجھے گولیاں لگیں تو میں نے جنرل فیصل کا نام لیا تھا، اس وقت تو کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا نہ توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال 14 مارچ کو میرے وکلا نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ہم کہیں نہیں جائیں گے اور تفتیش میں تعاون کریں گے، وکلا کی یقین دہانی کے باوجود رینجرز اور پولیس گھر داخل ہوئی اور توڑ پھوڑ کی، 14مارچ کو میرے گھر پر حملہ ہوا اور 18 مارچ کو جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں پیشی کے موقع پر پولیس دوبارہ مجھ پر حملہ آور ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھے پتا لگ گیا تھا یہ مجھے گرفتار کریں گے اور اپنی گرفتاری سے قبل کارکنان کو جی ایچ کیو کے سامنے پرامن احتجاج کی کال دی تھی، جب پارٹی چیئرمین کو رینجرز اغوا کر کے لے جائے گی تو کارکنان جی ایچ کیو کے سامنے ہی مظاہرہ کریں گے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ انہوں نے ہمارے پرامن احتجاج کو بغاوت بنا دیا، اگر ہم پرامن نہ ہوتے تو یاسمین راشد جناح ہاؤس کے باہر لوگوں کو اندر جانے سے نہ روکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے 16 لوگوں کو شہید کیا گیا، 3 لوگوں کی ٹانگیں کاٹی گئی اور ایک کو معذور کیا گیا، ہمارے 10 ہزار لوگوں کو اٹھایا گیا اور ان کو سزا دی گئی۔

عمران خان نے کہا کہ ان کا خیال تھا کہ مجھے گرفتار کیا جائے تو پارٹی ٹوٹ جائے گی اور پرویز خٹک نے ہمارے لوگوں کو بتایا کہ بانی پی ٹی آئی جلد گرفتار ہو جائے گا۔

انہوں نے موجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نواز شریف مگرمچھ کے آنسو بہا کر اپنی حکومت سے کہہ رہا ہے کہ مہنگائی کر دی ہے لیکن مسلم لیگ(ن) نے اپنے دور حکومت میں آئی پی پیز کے ساتھ مہنگے معاہدے کیے جس کی وجہ سے بجلی کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہیں، یہی لوگ آئی پی پیز کو لے کر ائے تھے اور اب یہی کپیسٹی چارجز ادا کر رہے ہیں۔

عمران خان نے پارٹی کے سینٹرل آفس پر پولیس چھاپے اور گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ ہمارے پارٹی کے موجودہ چیئرمین اور ترجمان کو گرفتار کر لیا گیا، بیرسٹر گوہر ہمارے ایم این ایز کے دستخطوں کی تصدیق کرانے الیکشن کمیشن جا رہے تھے، انہوں نے جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سب کو پتا ہے کہ ملک میں کس کی حکومت ہے اور سب جانتے ہیں ملک عاصم منیر چلا رہا ہے، صوبہ خیبر پختونخوا میں اس وقت حالات قابو سے باہر ہیں اور عوام کا پارہ ہائی ہے۔

اس موقع پر صحافی نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے براہ راست فوج پر بنوں واقعے کی فائرنگ کا الزام عائد کیا، آپ کو ایسی انفارمیشن کون دیتا ہے، آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے، کیا آپ پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں نے اس سے بڑی بات کی ہے کہ بنوں واقعہ پر جوڈیشل کمیشن قائم کر کے حقائق کا تعین کیا جائے، مجھے ایک جیل میں قید کی سزا ہے اور دوسری جیل میں پی ٹی وی دیکھنے کی سزا دی ہوئی ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کہا جا رہا ہے کہ اکتوبر تک ملک میں ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لایا جائے گا، کیا آپ اس کی سپورٹ کریں گے جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ لانے سے بہتر ہے یہ ملک میں سیدھا سیدھا مارشل لا لگا دیں، ویسے بھی ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کے بہت برے حالات ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ کر جا رہی ہیں اور ہمارے پروفیشنل بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں، جو سمجھتا ہے کہ ملک کو بحران سے نکالنے کا حل ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ میں ہے وہ بے وقوف ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کا واحد حل صاف شفاف انتخابات ہیں، محسن نقوی فراڈیا ہے اور وائسرائے بنا پھرتا ہے، اس کے پیچھے بڑے صاحب ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے کوئی غلطی نہیں کی لہٰذا میں کسی سے معافی نہیں مانگوں گا، ان کو چاہیے کہ یہ مجھ سے معافی مانگیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ چیف الیکشن کمشنر کو جنرل فیض نے مسلم لیگ(ن) کے ساتھ مل کر تعینات کروایا تھا، کیا یہ سچ ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ جنرل فیض وہی کرتا تھا جو اسے قمر باجوہ کہتا تھا لیکن یہ مجھے یقین دلاتے تھے کہ ہم نیوٹرل ہیں، قمر باجوہ کمر میں چھرا گھونپنے کا ماہر تھا اور اس کی اپنی ہی گیم تھی۔

غیرملکی جریدے میں چھپنے والے انٹرویو کے حوالے سے بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اپنے وکلا کو کچھ پوائنٹس بتا دیتا ہوں اور اسی بنیاد پر انٹرویو چھپا ہے۔