پاکستان

مدارس کا بات چیت کے ذریعے ’غلط فہمیوں‘ کو دور کرنے پر زور

آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان میں آدھے سے زیادہ مدارس نہ صرف غیر رجسٹرڈ ہیں بلکہ ان کے بانی، انتظامیہ، طلبا اور فنڈنگ ​​کے ذرائع سب نامعلوم ہیں۔

سنی اور شیعہ مکاتب فکر کے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے ذمہ دار پانچوں اداروں نے ریاست کے ساتھ بامعنی بات چیت پر زور دیا ہے تاکہ کسی بھی غلط فہمی کو دور کیا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق غیر رجسٹرڈ مدارس کی دستاویزات کی حمایت میں آواز اٹھاتے ہوئے ان کی گورننگ باڈیز کے نمائندوں نے متنبہ کیا کہ دستاویزات کی آڑ میں مدارس کے خلاف کارروائی کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کی طرف سے شدید ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔

دینی مدارس کو رجسٹر کرنے والا ادارہ اتحاد-تنظیم المدارس (آئی ٹی ایم) کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں علما نے فوج کے چیف ترجمان کی طرف سے دیے گئے بیان پر رد عمل دیا۔

یاد رہے کہ ایک حالیہ پریس کانفرنس میں انٹر سروسز پبلک ریلیشنز (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا تھا کہ پاکستان میں آدھے سے زیادہ مدارس نہ صرف غیر رجسٹرڈ ہیں بلکہ ان کے بانی، انتظامیہ، طلبا اور فنڈنگ ​​کے ذرائع سب نامعلوم ہیں۔ .

اس معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی ٹی ایم کے اہم ارکان نے 12 نکاتی اعلامیہ پیش کیا جس میں زیادہ تر ریاست اور مدارس کے درمیان خوشگوار تعلقات پر زور دیا گیا ہے۔

انہوں نے آزادی فکر اور مدارس کے تحفظ کا عزم بھی ظاہر کیا اور ’غلط فہمی‘ کی بنیاد پر ان اداروں کے خلاف کسی بھی کارروائی سے خبردار کیا۔

معروف عالم دین اور دارالعلوم کراچی کے صدر مفتی تقی عثمانی نے بھی وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے باڈی کی ملاقاتوں کی تفصیلات بتائیں جہاں انہوں نے مدارس کی رجسٹریشن کے طریقہ کار پر اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ لیکن یہ بہت عجیب بات ہے کہ جب ان متفقہ نکات پر عمل درآمد کی بات آتی ہے تو نامعلوم وجوہات کی بنا پر چیزیں رک جاتی ہیں۔

مفتی منیب الرحمن، علامہ شبیر حسن میسمی، قاری محمد حنیف جالندھری اور دیگر علما کے ساتھ مفتی عثمانی نے بھی خبردار کیا کہ اگر مدارس اور ان کی انتظامیہ کو دیوار سے لگایا گیا تو مزاحمت کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ ہم تصادم نہیں چاہتے لیکن اگر ہمیں دیوار سے لگایا جاتا ہے اور ہماری بات نہیں سنی جاتی ہے، تو ہمارے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں؟ ہمیں شک ہے کہ بیرونی دباؤ ہے جس کے نتیجے میں ہماری بات چیت ناکام ہو رہی ہے، ہمیں مسلسل دبایا جا رہا ہے، یہ کسی کی مدد نہیں کرے گا اور یہ ہمیشہ سنگین نتائج کا باعث بنے گا۔

قبل ازیں مفتی منیب نے اتحاد-تنظیم المدارس اجلاس کا 12 نکاتی اعلامیہ پڑھ کر سنایا جس میں ریاست اور ملک میں مدارس کے نمائندوں کے درمیان بامعنی بات چیت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے تجربات نے ثابت کیا ہے کہ اصل طاقتیں ریاست کے پاس ہوتی ہیں، لہذا ہم آرمی چیف سے براہ راست اپیل کرتے ہیں کہ وہ ذاتی طور پر اس ساری صورتحال کا جائزہ لیں اور ریاست کا مدارس کے ساتھ رویہ درست کریں۔