پاکستان

اسلام آباد: پمز ہسپتال میں ایم پاکس کا ایک مشتبہ کیس رپورٹ

متاثر ہ شخص سعودی عرب سے پاکستان آیا ہے، ایم پاکس سے متاثرہ شخص کے سیمپل این آئی ایچ بھیج دیے ہیں، فوکل پرسن ڈاکٹر نسیم اختر

اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں ایم پاکس (منکی پاکس) کا ایک مشتبہ کیس رپورٹ ہوا ہے۔

ڈان نیوز کے مطابق فوکل پرسن ڈاکٹر نسیم اختر نے تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ 47 سالہ متاثرہ شخص آزاد کشمیر کا رہائشی ہے۔

ڈاکٹر نسیم اختر کا کہنا تھا کہ متاثر ہ شخص سعودی عرب سے پاکستان آیا ہے، ایم پاکس سے متاثرہ شخص کے سیمپل این آئی ایچ بھیج دیے ہیں۔

واضح رہے کہ 16 اگست کو خیبرپختونخوا میں ایم پاکس کے مزید 2 کیسز سامنے آئے تھے، جس کے بعد ملک بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 3 ہوگئی تھی۔

اس سے ایک دن قبل پاکستان میں ایم پاکس کا پہلا مشتبہ کیس رپورٹ ہوا تھا جس کے بعد نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) نے اس بیماری سے نمٹنے کے لیے اقدامات کے بارے میں ایک ایڈوائزری جاری کردی تھی۔

ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو میں کیسز کے قریبی ممالک میں پھیلنے کے بعد ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے افریقہ میں پھیلے ایم پاکس کو بین الاقوامی تشویش کی پبلک ہیلتھ ایمرجنسی قرار دے دیا تھا، جو کہ آرگنائزیشن کا اعلیٰ ترین سطح کا الرٹ ہے۔

پاکستان میں اس سے قبل ایم پاکس کے کیسز سامنے آ چکے ہیں، تاہم یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا تھا کہ مریضوں میں کس ویریئنٹ کی تشخیص ہوئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ سروسز سلیم خان نے کہا تھا کہ مریضوں میں سے 2 میں ایم پوکس کی تصدیق ہوئی ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ تیسرے مریض کے نمونے دارالحکومت اسلام آباد کے نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ کو تصدیق کے لیے بھیجے گئے ہیں، مزید بتایا کہ تینوں مریضوں کو قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے۔

صوبائی محکمہ صحت نے بتایا تھا کہ متحدہ عرب امارات سے آنے والے مریضوں میں وائرل انفیکشن کی تشخیص ہوئی ہے۔

ایم پاکس کی کتنی اقسام ہیں؟

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایم پاکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔

اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پاکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔

یہ وائرس تقریباً 100 ممالک میں پھیلا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔

پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی، تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔

اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔

افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ سنہ 2024 کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 14,500 سے زائد ایم پاکس انفیکشن اور 450 سے زائد اموات ہوئیں۔

یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں انفیکشن میں 160 فیصد اضافہ اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہے۔

اگرچہ ایم پوکس کے 96 فیصد کیسز ڈی آر کانگو میں ہیں لیکن یہ بیماری بہت سے ہمسایہ ممالک جیسے برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگینڈا میں پھیل چکی ہے جہاں یہ عام نہیں۔

ڈی آر کانگو میں ایم پاکس ویکسین اور علاج تک رسائی بہت کم ہے اور صحت کے حکام اس بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں فکرمند ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔

ایم پاکس کی علامات کیا ہیں؟

ابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔

بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔

دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔

یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زحموں کا سبب بن سکتی ہے۔

انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن کے درمیان رہتا ہے۔

سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہو سکتے ہیں خاص طور پر منہ ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔

یہ مرض کیسے پھیلتا ہے؟

ایم پاکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے, ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جلد سے جلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے, یہ وائرس زخمی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے, یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔

بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے,2022 میں عالمی وبا کے دوران یہ وائرس زیادہ تر جنسی رابطے کے ذریعے پھیلا تھا, کانگو سے موجودہ وبا جنسی رابطے کی وجہ سے پھیل رہی ہے لیکن یہ دیگر برادریوں میں بھی پائی گئی ہے۔

اس کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟

ایم پاکس کے پھیلاؤ کو انفیکشن روک کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یسا کرنے کا بہترین طریقہ ویکسین کا استعمال ہے۔

ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں دوا ساز کمپنیوں سے کہا ہے کہ جن ممالک میں اشد ضرورت ہے وہ اپنی ایم پوکس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے پیش کریں، بے شک یہ ویکسین باضابطہ طور پر منظور شدہ نہ بھی ہو۔

اب جبکہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے، امید ہے کہ حکومتیں اپنے ردعمل کو بہتر طریقے سے مربوط کر کے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں میں طبی سامان اور امداد پہنچانے میں تیزی لائیں گی۔