پاکستان

اسلام آباد: رہنما پی ٹی آئی شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا

ہم سچ اور حق کے ساتھ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، فتح بھی حق اور سچ کی ہوگی، شعیب شاہین
| |

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے پولیس پر حملہ کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ایڈووکیٹ شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

شعیب شاہین کو انسدادِ دہشت گردی عدالت اسلام آباد کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

کیس کی سماعت کے دوران جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر راجا نوید سے استفسار کیا کہ آپ شعیب شاہین سے کیا چاہتے ہیں؟

پراسیکیوٹر راجا نوید نے جواب دیا کہ ہمیں اس حد تک ریمانڈ چاہیے کہ برآمدگی کر سکیں۔

اس پر جج نے استفسار کیا کہ کیا برآمدگی کرنی ہے؟

پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں ملزمان سے اپنی اینٹی رائٹ کِٹس برآمد کرنی ہیں، جس پر جج ابوالحسنات نے سوال کیا کہ ایک جلسہ تھا اس کے دوران کیا معاملہ ہوا؟

پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 7 بجے تک وقت دیا گیا تھا، انہوں نے خلاف ورزی کرتے ہوئے 9 بجے جلسہ ختم کیا، انہوں نے عوام کو اشتعال دلا کر امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کا کہا، شعیب شاہین کے خلاف متعدد مقدمات درج ہوچکے، وہ اپنے جرم کو بار بار کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں ملزمان سے پولیس کی کٹس برآمد کرنی ہیں، پولیس کا سامان استعمال کرتے ہوئے پولیس پر حملہ کیاگیا، پراسیکیوٹر نے بتایا کہ 90 روز کا جسمانی ریمانڈ انسداد دِہشت گردی عدالت ایکٹ کے تحت دیا جاسکتا ہے۔

دوران سماعت پراسیکیوٹر راجا نوید نے عدالت سے 15 روز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ جلسہ کب سے کب تک تھا؟ جلسے کا بتائیں۔

اس پر پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جلسے کا وقت 4 سے 7 بجے تک تھا، امن و امان کا نیا ایکٹ آیا ہے، تحریک انصاف کا جلسہ چلتا رہا، انتظامیہ نے بہت کوشش کی امن و امان قائم رہے، جلسے کی جگہ سے بارود بھی برآمد ہوا، تحریک انصاف کی قیادت نے اشتعال پیدا کیا۔

اس کے بعد شعیب شاہین کی جانب سے وکیل ریاست علی آزاد نے دلائل کا آغاز کیا۔

ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر میں درج دفعات میں تو لکھا ہے کہ شعیب شاہین چور ہیں، میرے بھائی کو کمانڈنگ للکار کا پتا ہی نہیں، شعیب شاہین اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر رہے، سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے اہم رکن ہیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ ’کہا جارہا ہے کہ شعیب شاہین اور عامر مغل نے کارکنوں کو اکسایا، شعیب شاہین وہاں موجود ہی نہیں تھے، ایسے تو جناب کا یا میرا نام لیں گے تو کیا ہم ملزم ہوں گے؟‘

ریاست علی آزاد نے کمرہ عدالت میں سوال اٹھایا کہ یہ کس چیز کی تفتیش کر رہے ہیں، کیا شعیب شاہین سے ایٹم بم برآمد کر رہے ہیں؟ یہاں جو بندہ سانس لے اس پر مقدمات بنائے جارہے ہیں۔

دوران سماعت ریاست علی آزاد نے شعیب شاہین کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ شعیب شاہین کا ریمانڈ نہیں بلکہ ڈسچارج کا کیس ہے، شعیب شاہین کو تو پولیس کو ہی ڈسچارج کر دینا چاہیے تھا، شعیب شاہین کے ریکارڈ پر کوئی ماضی میں مقدمات نہیں۔

وکیل صفائی کا مزید کہنا تھا کہ اتنی شاپر میں جگہ نہیں جتنی تحریک انصاف والوں کے خلاف مقدمات درج ہو رہےہیں، شکر ہے انتظامیہ نے تحریک انصاف کو یونیفارم میں جلسہ کرنے کی ہدایت نہیں کی، مقدمے میں پورے کا پورا پاکستان پینل کوڈ درج کردیا ہے، شعیب شاہین کو ان کے چیمبر سے گرفتار کیا گیا۔

دوران سماعت شعیب شاہین کی گرفتاری کی سی سی ٹی وی فوٹیج جج ابوالحسنات ذوالقرنین کو دکھائی گئی۔

سماعت سے قبل کمرہ عدالت میں اسلام آباد کے 3 بارز کی وکلا قیادت و ممبران کی بڑی تعداد موجود تھی۔

شعیب شاہین نے ساتھی وکلا کو کمرہ عدالت میں خاموش بیٹھنے کی درخواست کی۔

پیشی کے دوران شعیب شاہین نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ سب کا مشکور ہوں، ہم سچ اور حق کے ساتھ عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں، فتح بھی حق اور سچ کی ہوگی، میرے ساتھ بیرسٹر گوہر تھے جبکہ شیر افضل مروت سی آئی اے کی حراست میں ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ رات سے تمام پارلیمنٹیرینز تھانہ سیکریٹریٹ میں تھے، صبح سب کو سی آئی اے تھانہ لے کر آئے، میں اور بیرسٹر گوہر رات کو رمنا میں تھے، صبح سی آئی اے تھانہ لے کر گئے۔

شعیب شاہین نے بتایا کہ مجھ سے تفتیش ہوئی کہ موبائل کا پاس ورڈ دو، میں نے کہا میں ڈیجیٹل دہشت گرد نہیں، کلاشنکوف والا دہشت گرد ہوں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد جسمانی ریمانڈ کی پولیس کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو کچھ دیر میں سنائے جانے کا امکان ہے۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کچھ دیر بعد درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی اور شعیب شاہین کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

قبل ازیں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) رہنماؤں و کارکنان کے خلاف تھانہ نون میں درج مقدمے کی کاپی سامنے آئی تھی۔

ڈان نیوز کے مطابق پولیس نے تعزیرات پاکستان کی 10 دفعات کے تحت ملزمان اور نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے، مقدمہ میں انسداد دہشت گردی کی دفعات سمیت پولیس پر حملے اور گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کی دفعات بھی شامل ہیں۔

فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے متن کے مطابق محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کی نفری جی ٹی روڈ پر 26 نمبر پُل پر موجود تھی کہ اسی دوران قریب موجود لوگوں کاہجوم ریاست مخالف نعرے بازی کر رہا تھا جو کہ ترنول پُل کے اوپر آیا۔

ایف آئی آر کے مطابق پی ٹی آئی کارکنان زبیر خان کی قیادت میں پارٹی پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں ڈنڈوں، نوکیلے پتھر اور سریے کے راڈ تھے۔

درج مقدمہ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے وجہ دریافت کرنے پر زبیر خان نے بتایاکہ سینئر مقامی قیادت جن میں شعیب شاہین اور عامر مغل شامل تھے، کی ہدایت پر 26 نمبر پُل کے روڈ کو بلاک کیا گیا، جبکہ ایف آئی آر میں پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی نیت پتھر مارنا اور آہنی راڈ سے مارنے کی دفعات بھی شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید لکھا گیا ہے کہ ملزمان نے پولیس افسران و اہلکاروں جن میں انسپکٹر اعجاز علی شاہ، سب انسپکٹر (ایس آئی) غلام سرور نعیمی، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) افسر علی، ہیڈ کانسٹیبل (ایچ سی) مشتاق احمد، کانسٹیبل یاسر محمود اور رضوان شامل ہیں، کو زخمی کیا جبکہ 4 پولیس اہلکاروں محمد اعجاز، محمد ریاض، حسن رضا اور یاسر محمود سے جبری طور پر اینٹی رائٹ کٹ چھین لی اور پولیس موبائل کو بھی نقصان پہنچایا۔

ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ پولیس کے مطابق آنسو گیس کی شیلنگ کے دوران تمام ملزمان موقع سے فرار ہو گئے تاہم پولیس نے 3 ملزمان کو پہچان لیا، جن کی شناخت سعود افتخار، محمد عارف اور محمد عارف ولد گلزار کے نام سے ہوئی ہے، جو کہ عامرمغل کے قریبی ہیں۔

واضح رہے اسلام آباد پولیس نے گزشتہ روز پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، شیر افضل مروت اور شعیب شاہین کو اتوار کو ہونے والے جلسے کے بعد ایس او پیز کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا تھا۔