پاکستان

مجوزہ آئینی ترمیم: اختر مینگل نے حمایت کے بدلے 2 ہزار لاپتا افراد کی بازیابی کی شرط رکھ دی

وزیراعظم نے کل ہم سے تعاون کرنے کی درخواست کی، حکومت لاپتا افراد کا پتا لگائے، ووٹ لے لے، حکومتی یقین دہانیوں کا یقین نہیں، آئینی ترمیم حکومت کی ضرورت ہے، استعفیٰ کسی صورت واپس نہیں لوں گا، اختر مینگل

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل (بی این پی مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے حمایت کے بدلے بلوچستان کے 2 ہزار لاپتا افراد کی بازیابی کی شرط رکھ دی ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں آئینی ترمیم پر درکار ووٹوں کے حصول کے لیے نائب وزیر اعظم اسحٰق ڈار اور دیگر حکومتی عہدیداروں نے بلوچستان نیشنل پارٹی سے رابطہ کیا۔

اخترمینگل نے کہا کہ وزیراعظم نے کل ہم سے تعاون کرنے کی درخواست کی، مجھ سے رابطہ کیا گیا ہے، میں نے کہا پہلے ڈرافٹ تو دکھایا جائے، آئینمی ترمیم کا مسودہ ابھی تک نہیں ملا،جب تک ڈرافت نہیں ملتا، حمایت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت لاپتا افراد کا پتا لگائے اور ووٹ لے لے، ہمیں حکومت کی یقین دہانیوں کا اب یقین نہیں رہا، مولانا فضل الرحمٰن سے 2 روز پہلے رابطہ ہوا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ آئینی ترمیم حکومت کی ضرورت ہے، ہماری ضرورت تو لاپتہ افراد ہیں،اپنا استعفیٰ کسی صورت واپس نہیں لوں گا۔

قائم مقام صدر بی این پی ساجد ترین ایڈووکیٹ نے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی عہدیداروں کا سردار اختر مینگل کے علاوہ مجھ سے بھی رابطہ ہوا ہے، ہم نے حکومتی عہدیداروں سے یہ سوال کیا کہ اگر یہ ترامیم عوام کے فائدے کے لیے ہیں تو ان کو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے۔

ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے حکومتی عہدیداروں کو بتایا کہ آئینی ترامیم کے مسودے کو تو تین ماہ پہلے منظر عام پر لانا چائیے تھا، ہم نے یہ کہا ہے کہ جب تک آئینی ترامیم کا مسودہ نہیں ملے گا اس وقت تک پارٹی ان کی حمایت نہیں کرسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے سربراہ نے آئینی ترامیم کی حمایت کے لیے لاپتا افراد کی بازیابی کی شرط بھی رکھ دی ہے، سردار اخترمینگل نے کہا ہے کہ اگر حکومت پارٹی کی جانب سے حمایت چاہتی ہے تو وہ بلوچستان کے 2 ہزار لاپتا افراد کو بازیاب کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارٹی حکومت کو 2 ہزار لاپتا افراد کی فہرست فراہم کرے گی، پارٹی کی حمایت کے لیے ان 2 ہزار افراد کو آئینی ترامیم کی منظوری سے پہلے بازیاب کرانا ہوگا۔

ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ یہ کہا جارہا ہے کہ بلوچستان اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ ہوگا، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں سے بلوچستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا، اگر حکومت بلوچستان کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہے تو وہ قومی اسمبلی میں بلوچستان کی نشستوں میں اضافہ کرے۔

یاد رہے کہ حکومت کو آئینی ترمیم کے لیے درکار ووٹوں کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے اور حکومت جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کو منانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس کے علاوہ آج پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے اجلاس طلب کیے گئے ہیں جب کہ پارلیمنٹ کا ہفتے کے آخر میں اجلاس بلانا غیر معمولی ہے کیونکہ عام طور پر بجٹ سیشن یا کسی حساس مسئلے کے لیے اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

اگرچہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے لیے باضابطہ طور پر جاری کیے گئے ایجنڈے میں ترمیم کا کوئی ذکر شامل نہیں تھا لیکن اس طرح کی چیزیں عام طور پر ایک ضمنی ایجنڈے کے حصے کے طور پر ایوان کے سامنے رکھی جاتی ہیں۔

ادھر وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا سہ پہر 3 بجے ہونے والا اجلاس بھی تاحال شروع نہ ہو سکا، کابینہ کا اجلاس دن 11 بجے طلب کیا گیا تھا لیکن پھر اسے تین بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن یہ رات 7 بجے تک شروع نہ ہو سکا تھا۔

اس سے پہلے ایوان بالا سینیٹ کا اجلاس بھی تاخیر کا شکار ہوا تھا اور 4 بجے شروع ہونے والا اجلاس پہلے رات 7 بجے تک موخر کردیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی اجلاس میں تاخیر کے سبب اب سینیٹ کا اجلاس مزید تاخیر کے بعد رات 10 بجے ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

حکمران اتحاد میں شامل مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم نے اپنے اراکین کو وفاقی دارالحکومت میں ہی رہنے کی ہدایت کر رکھی ہیں تاکہ قانون سازی کے لیے دونوں ایوانوں میں ان کی موجودگی کو یقینی بنایا جا سکے۔

مجوزہ ترامیم سے متعلق اہم نکات سامنے آگئے، چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافے کی ترمیم شامل نہیں

حکومت کی جانب سے مجوزہ ترامیم سے متعلق بعض اہم نکات سامنے آّگئے جن میں ججز کو نکالنے کا طریقہ کار بھی طے کیا جائے گا جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں اضافے کی ترمیم شامل نہیں ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سامنے آنے والی مجوزہ ترامیم میں آئینی عدالت کے قیام سے متعلق ترمیم میں شامل ہے، اس کے علاوہ آئینی ترمیم میں ججز کو نکالنے کا طریقہ کار بھی طے کیا جائےگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز کی تقرری سے متعلق جو نکتہ انیسویں ترمیم میں واپس کیا گیا، اس کو بحال کیا جائے گا، آئینی ترمیم میں 63 میں ترمیم بھی شامل ہے، بلوچستان اسمبلی کی نشستوں سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مجوزہ آئینی ترمیم کے مطابق چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں اضافہ نہیں کیا جائےگا، آئندہ چیف جسٹس کے طریقہ کار کو تبدیل کیا جائے گا جس کے تحت سینئر ترین 5 ججز میں سے کوئی ایک آئندہ چیف جسٹس تعینات کیاجائےگا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے تبادلے کی آئینی ترمیم بھی مسودے میں شامل ہے جب کہ آئینی ترمیم میں ازخود نوٹس کی دفعہ 184 تھری میں ترمیم کی بھی تجویز ہے، ججوں کا تقرر کرنے والی باڈی کی تشکیل نو بھی مسودے میں شامل ہے۔

اس کے علاوہ اس میں جوڈیشل کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی کو یکجا کرکے کمیٹی بنانے کی بھی تجویز ہے، ایڈہاک ججز کی تقرری کی دفعہ 181 میں ترمیم اور آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے علیحدہ آئینی عدالت کے قیام کی تجویز مسودے میں شامل ہے۔

رپورٹس کے مطابق ذرائع کا کہنا ہے کہ آئینی عدالت میں 184، 185، 186 سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوگی، آئینی عدالت کے فیصلے پر اپیل بھی آئینی عدالت میں سنی جائے گی۔