پاکستان

’فیصلے سے سیاسی بحران کا خدشہ ہے‘، سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلہ پر ماہرین کی رائے

الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں سے متعلق یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔

مخصوص نشستوں سے متعلق تفصیلی فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے، جو جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ، پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کوکالعدم قرار دیتی ہے، الیکشن میں سب سے بڑا اسٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟

سپریم کورٹ کے اس فیصلہ پر قانونی ماہرین کیا رائے رکھتے ہیں، اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

الیکشن کمیشن پر توہین عدالت کی کارروائی ہوسکتی ہے، ماہر قانون محمود سدوزئی

فیصلہ کے حوالے سے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے ماہر قانون محمود سدوزئی کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے اگر فیصلے پر عمل نہ کیا تو توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔

محمود سدوزئی نے کہا کہ اس فیصلے میں کسی قسم کا ابہام نہیں تھا، یہ سیٹیں پاکستان تحریک انصاف کی تھیں چاہے آپ اس کا نام سنی اتحاد کونسل رکھیں یا آزاد امیدوار اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اس فیصلے کی کوئی دوسری تشریح کر ہی نہیں سکتا، سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بھی حکم کو نہ ماننا توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔

آئین کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے، کنور دلشاد

سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن کشور دلشاد نے ڈان نیوز کو بتایا کہ آئین کے آرٹیکل 222 کے تحت الیکشن کمیشن کو مکمل تحفظ حاصل ہے، اس لیے الیکشن کمیشن کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس عدالتی فیصلے سے سیاسی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے، انٹرا پارٹی الیکشن کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ابھی نہیں کیا، اس فیصلے کے آنے کے بعد ہی اس پر غور ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن ایکٹ کا ترمیمی بل منظور ہوچکا ہے جس کے تحت سپریم کورٹ کا 12 جولائی کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا ہے۔

الیکشن کمیشن کے پاس فیصلے پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، بیرسٹر اسد رحیم

بیرسٹر اسد رحیم نے ڈان نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا اطلاق تمام اداروں پر ہوتا ہے، اگر الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہیں کرتا تو وہ توہین عدالت کا مرتکب ہوگا۔

ان کا کہنا تھا تفصیلی فیصلہ سے تمام ابہام دور ہو گئے ہیں، اس کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔

اسد رحیم نے کہا کہ نظر ثانی کی زیادہ تر درخواستوں میں عدالت کے فیصلہ پر عمل درآمد کیا جاتا ہے اور نظرثانی کی درخواست کو خارج کیا جاتا ہے، ایسے بہت کم کیسز ہوتے ہیں جس میں نظرثانی درخواستوں پر عدالت کے فیصلوں کو تبدیل کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کروانا ہر ریاستی ادارے پر فرض ہے اور ہر شہری کو اس کا احترام کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ آئینی بحران اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک الیکشن کمیشن کو توہین عدالت کے زمرے میں نہیں لایا جاتا، دو ججز کے اختلاف کے باوجود اکثریتی فیصلے کی قانونی حیثیت ہے جسے ایک مکمل بینچ کے فیصلہ طور پر لیا جائے گا۔

بیرسٹر اسد رحیم کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو اس فیصلے کی وضاحت نہیں دینی چاہیے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ سیاسی ادارہ نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔