عمران خان کا حکومت کی جانب سے دیوالیہ ہوتی معیشت کو سنبھالنے کا اعتراف
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور سابق وزیراعظم عمران خان نے حکومت کی جانب سے دیوالیہ ہوتی معیشت کو سنبھالنے کا اعتراف کرلیا۔
ڈان نیوز کے مطابق اڈیالہ جیل راولپنڈی میں بانی پی ٹی آئی کی صحافیوں سےگفتگو میں صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ تسلیم کررہے ہیں کہ حکومت نے معیشت کو استحکام دیا؟
عمران خان نے جواب دیا کہ معیشت مستحکم ہوکر دیوالیہ ہونے سے بچ گئی لیکن ترقی نہیں ہوئی۔
ادھر، سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر پوسٹ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ 2025 حقیقی آزادی کا سال ہے، انشااللہ 2024 پاکستان کے لیے ایک مشکل سال تھا، ظاہر ہے آزادی مشکل سے ہی ملتی ہے!
انہوں نے دعویٰ کیا کہ مجھے پیغام ملا ہے کہ ہم سے ڈیل کریں ہم آپ کی پارٹی کو ’سیاسی اسپیس‘ دیں گے لیکن آپ کو ہاؤس اریسٹ کر کے بنی گالہ میں منتقل کر دیں گے۔
’ڈیل کا پیغام ملا، لیکن کوئی ڈیل قبول نہیں کروں گا‘
عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے جواب دیا ہے کہ پہلے باقی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو، میں جیل میں رہ لوں گا لیکن کوئی ڈیل قبول نہیں کروں گا، ہاؤس اریسٹ یا خیبرپختونخوا کی کسی جیل میں نہیں جاؤں گا-
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ اپنی قوم سے کہتا ہوں کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، آپ کا کپتان ڈٹا ہوا ہے، میں اپنے سمندر پار پاکستانیوں سے کہوں گا کہ ترسیلاتِ زر کے بائیکاٹ کی مہم میں شامل ہوں۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ ابھی ہمارے مطالبات کے حوالے سے کمیٹی کمیٹی ہی کھیلا جا رہا ہے، تاہم اگر مذاکرات سے مثبت نتائج آئے تو ترسیلات زر کے بائیکاٹ کی مہم روک دی جائے گی، یہ حقیقی آزادی اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک احتجاج ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگر قانون کی حکمرانی ہوتی تو ملک میں سرمایہ کاری آتی اور معیشت سنبھل جاتی مگر اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی، سرمایہ دار اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں اور کارخانے بند ہو رہے ہیں-
انہوں نے فوجی عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنائے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹ میں 9 مئی سے متعلق اپنی مرضی کے ٹرائل کئے گئے، اوپن کورٹ میں ٹرائل چلائے جاتے تو 9 مئی کی ویڈیو فوٹیج دینی پڑتی۔
ان کا کہنا تھا کہ 18 مارچ 2023 کو میرے اوپر جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد میں حملے کی ویڈیو کا ریکارڈ دانستہ طور پہ غائب کیا گیا، شفاف ٹرائل شہریوں کا بنیادی آئینی حق ہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہوئے اور بین الاقوامی سطح پہ پاکستان کی شدید سُبکی ہوئی۔
عمران خان نے کہا کہ آئینی عدالت اس لیے بنائی گئی ہے تاکہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی طرح ہی ان سے کام لیا جا سکے، خفیہ اداروں کا اصل کام سرحدوں کا تحفظ اور دہشت گردی سے بچاؤ ہے، اگر وہ پولیٹیکل انجینئرنگ اور تحریک انصاف کو توڑنے میں ہی لگے رہیں گے تو سرحدوں کا تحفظ کون کرے گا؟
سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اپنی پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیں، افغانستان پر 2 دفعہ بمباری کی گئی، پہلے دعوٰی کیا گیا تھا کہ مہاجرین کو زبردستی واپس بھیجنے سے دہشت گردی کم ہو گی مگر اس طریقہ کار سے نفرت مزید بڑھی جو علاقائی امن و امان کے لیے ٹھیک نہیں ہے-
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو جب وزیر خارجہ بنے تو ایک بار بھی افغانستان نہیں گئے، جو ایک ترجیح ہونا چاہیے تھا، مزید کہنا تھا کہ میں نے سابق آرمی چیف جنرل باجوہ کو بھی کہا تھا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد حالات ایسے نہیں کہ اُس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض کو فوری تبدیل کیا جائے لیکن وہ سارے فیصلے پاکستان کی بجائے اپنی توسیع کے منصوبے کے لیے کر رہا تھے، جس کا پاکستان کو نقصان ہوا اور دہشتگردی میں اضافہ ہوا-
دریں اثنا، بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی نے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔
ڈان نیوز کے مطابق پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی کے ارکان اجازت ملنے کےبعد گیٹ 5 سے اڈیالہ جیل کے اندر روانہ ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی میں شامل اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سلمان اکرم راجا، سینیٹر علامہ راجا ناصر عباس اور حامد رضا نے عمران خان سے ملاقات کی۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل عمران خان نے کہا تھا کہ حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے عمل کو معنی خیز بنانے کے لیے اہم ہے کہ میری ملاقات میری نامزد کردہ مذاکراتی ٹیم سے کروائی جائے تاکہ مجھے معاملات کا صحیح علم ہو سکے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں اڈیالہ جیل راولپنڈی میں وکلا سے اہم گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے عمل کو معنی خیز بنانے کے لیے اہم ہے کہ ان کی ملاقات مذاکراتی ٹیم سے کروائی جائے تاکہ انہیں معاملات کا صحیح علم ہو سکے، انہوں نے صاحبزادہ حامد رضا کو تحریک انصاف کے مذاکراتی عمل کا ترجمان نامزد کیا تھا۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ حکومت اگر نتیجہ خیز مذاکرات چاہتی ہے تو ہمارے دو مطالبات ہیں، ایک مطالبہ انڈر ٹرائل سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دوسرا 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر سینئیر ترین ججز پر مشتمل جوڈیشل کمیشن کا قیام۔
عمران خان نے کہا تھا کہ ان مطالبات پر عمل درآمد کی صورت میں ہم سول نافرمانی کی تحریک کو مؤخر کر دیں گے لیکن مجھے خدشہ ہے کہ حکومت ہمارے 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے مطالبے کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کرے گی لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی کمیٹیوں کے درمیان اسپیکر ہاؤس میں ہونے والی پہلی ملاقات میں مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق ہوا تھا جب کہ وزیراعظم نے ملک کے وسیع تر مفاد کے لیے مذاکرات میں مثبت پیش رفت کی امید کا اظہار کیا تھا۔