کراچی: مصطفیٰ عامر کی میت ایدھی سردخانے منتقل، ایس ایچ او دریجی معطل
کراچی کے مواچھ گوٹھ قبرستان میں مقتول مصطفیٰ عامر کی قبر کشائی کے بعد لاش سے نمونے حاصل کرلیے گئے ہیں جبکہ مقتول کی میت کو تابوت میں ڈال کر ایدھی سردخانے منتقل کردیا گیا ہے، لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ مصطفیٰ عامر کی تدفین خود کریں گے۔
ڈان نیوز کے مطابق قبر کشائی کی نگرانی جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی جانب سے کی گئی جبکہ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ میڈیکل بورڈ کی سربراہی کررہی تھیں، بورڈ میں ڈپٹی سرجن اور ایم ایل او جناح ہسپتال بھی شامل تھے۔
قبر کشائی کا عمل صبح 10 بجے کے قریب شروع ہوا جس کے بعد لاش کے مختلف نمونے لیے گئے اور لاش کو تابوت میں ڈال کر ایدھی سرد خانے منتقل کیا گیا۔
پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ نے بتایا کہ لاش کے 11 نمونے لیے گئے ہیں جنہیں سندھ لیب بھیجا جائے گا جس کی رپورٹ 4 سے 7 روز تک آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ لاش مکمل جلی ہوئی ہے اور فنگر پرنٹس موجود نہیں ہیں، لاش کی شناخت عموماً فنگر پرنٹس سے کی جاتی ہے، مصطفیٰ لاش جلی ہونے کے باعث نمونے کے ذریعے شناخت اور وجہ موت جاننے معلوم کی کوشش کریں گے جو کہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔
تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ڈی این اے رپورٹ آنے کے بعد تصدیق ہوجائے گی کہ لاش مصطفیٰ عامر کی ہے اور وجہ موت بھی معلوم ہوجائے گی، پولیس کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ کی بہت زیادہ اہمیت ہے، اس کی بنیاد پر ہی کیس کا تعین ہوگا۔
دریں اثنا، قبر کشائی کے بعد میت تابوت میں ڈال کر ایدھی سردخانے منتقل کردی گئی ہے، پولیس کے مطابق عموماً قبرکشائی کے بعد لاش کو دوبارہ اسی جگہ دفن کردیا جاتا ہے تاہم مصطفیٰ کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ میت کی تدفین خود کریں گے۔
دوسری جانب ایس ایس پی حب سید فاضل بخاری نے مصطفیٰ عامر کی کار اور لاش کی بروقت تحقیقات نہ کرنے پر ایس ایچ او دریجی کو معطل کرکے واقعے کی تفتیش کے لیے ڈی ایس پی وندر محمد جان ساسولی کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی۔
کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ 5 روز میں واقعے کی تحقیقات مکمل کی جائے اور پتہ لگایا جائے کہ کار کہاں سے حب میں داخل ہوئی اور دریجی تک کیسے آئی؟ تحقیقاتی کی جائے کہ پولیس کو اتنے دیر تک کار کو آگ لگائے جانے کا علم کیوں نہیں ہوا۔
کمیٹی نے باقاعدہ طور پر واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہے، کمیٹی 5 روز رپورٹ دے گی جس کی بنیاد پر غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کیس کا پس منظر
یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔
25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔
بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔
ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔
ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔
ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔
کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔
بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔
دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔
تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔
پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔