’پاکستان میں صنفی بنیاد پر خواتین پر تشدد بحران کی صورت اختیار کرچکا ہے‘
دنیا پریشان اور مشتعل ہے جبکہ دنیا کے بہت سے مقامات پر اس اشتعال کی وجہ سے خواتین زیادہ نقصان اٹھاتی ہیں۔ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ کی خواتین سے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، 2024ء میں ہر چار میں سے ایک ملک نے خواتین کے حقوق کو مزید دشوار بنایا۔
گزشتہ ایک دہائی میں تنازعات سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والی خواتین کی تعداد میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے حقوق کے لیے لڑنے والی خواتین کو روزانہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جہاں انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ یہاں تک کہ انہیں موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔
امریکا میں خواتین کے حقوق کے خلاف نئے قوانین بنائے گئے ہیں جو خواتین کے لیے صحت کی سہولیات تک رسائی کو محدود کرتے ہیں اور ایسے پروگرامز پر پابندی عائد کرتے ہیں جو تنوع اور مساوات کو فروغ دیں یا جس سے زیادہ خواتین کو نمائندگی مل سکے۔ بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات کا تناسب 2014ء میں ہر ایک لاکھ خواتین میں سے 56.3 کیسز تھا لیکن 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 66.4 ہوگئی ہے۔
یہ حیران کُن نہیں کہ پاکستان کے اعداد و شمار انتہائی خراب ہیں۔ 2024ء کے جینڈر گیپ انڈیکس میں پاکستان اواخر سے دوسرے نمبر پر ہے جبکہ اس سے نیچے صرف سوڈان ہے۔ 2024ء میں سسٹینیبل سوشل ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ایس ایس ڈی او) کی ایک رپورٹ سے سامنے آیا کہ جہاں دنیا بھر میں 30 فیصد خواتین کو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہیں پاکستان میں 90 فیصد خواتین اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔
صرف یہ اعداد و شمار ہی بتا دیتے ہیں کہ دنیا کے دیگر حصوں کے مقابلے پاکستان میں خواتین سے متعلق صورت حال کتنی سنگین ہے۔ اگرچہ قوانین موجود ہیں لیکن ان کا مؤثر نفاذ نہیں ہوتا اور خواتین کے لیے انصاف کا حصول مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم خواتین ریپ، استحصال، تشدد یا ہراساں کیے جانے کے واقعات کی رپورٹ کرتی ہیں۔ خواتین کے خلاف تشدد کا مجموعی اثر اتنا شدید ہے کہ اس کی وجہ سے ہر سال تقریباً 8 کروڑ دن ضائع ہوجاتے ہیں جن میں وہ کام نہیں کرپاتیں۔
اگرچہ خواتین کے خلاف بہت سے جرائم کی اطلاع نہیں دی جاتی ہے لیکن رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد بھی چونکا دینے والی ہے۔ ایس ایس ڈی او کے مطابق 2024ء میں پاکستان میں 5 ہزار 339 ریپ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ لیکن چونکہ سماجی اور ثقافتی طور پر اسے ممنوعہ مضوعات کے طور پر شمار کیا جاتا ہے اسی لیے خواتین ریپ کی اطلاع نہیں دیتیں۔ لہٰذا اصل واقات تعداد کم از کم دو گنا زیادہ ہے۔ یہ جنسی تشدد کے سنگین خطرے کو ظاہر کرتا ہے جس کا پاکستان میں خواتین کو ہر روز سامنا ہے۔
خواتین کو اپنے گھر اور چاردیواری سے باہر، ہر جگہ خطرات کا سامنا ہے۔ یہ حقیقت کہ ریپ کے صرف 0.5 فیصد کیسز میں پراسیکیوشن ہوتی ہے، ظاہر کرتا ہے کہ متاثرین کے لیے انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے۔ اس سے بھی بدتر بات یہ ہے کہ انصاف کے حصول کی کوشش کرنے والوں کو نظام میں اکثر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ثبوتوں کو صحیح طریقے سے جمع یا ان کا درست تجزیہ نہیں کیا جاتا اور مقدمات کو ’ثبوتوں کی کمی‘ کی وجہ سے خارج کردیا جاتا ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اکثر متاثرہ خاتون کو جرم کرنے والے شخص کے مقابلے میں سخت سماجی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تشدد کے سنگین نوعیت کے واقعات کے علاوہ پاکستانی خواتین کو اپنے اردگرد مردوں کی طرف سے جارحیت اور تذلیل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس میں نہ صرف گھر کے مرد باپ، بھائی اور شوہر شامل ہیں بلکہ سڑکوں پر اجنبی مرد بھی شامل ہیں۔ اگر کوئی عورت گاڑی چلا رہی ہو تو انہیں مردوں کی نظروں کا سامنا رہتا ہے۔ یہ خواتین کے لیے مستقل چیلنجز پیدا کرتے ہیں۔
دفتری زندگی کی طرف آئیں تو کام پر سبقت لے جانے والی خاتون کو اکثر ایسے مردوں کی ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انہیں دفتر میں خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ایسی خاتون ان کے لیے پروموشن کے مواقع کم کرسکتی ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ خاتون پر تنقید کرنے یا اسے نیچا دکھانے سے نہیں ہچکچاتے۔
ایسی خواتین روزمرہ کی بنیاد پر مردوں کے تسلط کا سامنا کرتی ہیں جیسے مرد نامناسب لطیفے بناتے ہیں، شادی شدہ باس ان خواتین کی جانب پیش قدمی کرتے ہیں، آفس میٹنگز میں مرد ساتھیوں کا خواتین کو مدعو نہ کرنا اور دیگر نقصان دہ عوامل کا خواتین کو سامنا رہتا ہے۔ یہ تمام چیزیں ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہیں جو خواتین کے لیے زندگی کو مزید دشوار اور دکھی بنا دیتی ہے۔
صنفی مساوات میں 146 ممالک میں سے پاکستان 145 نمبر پر ہے۔ یہ رینکنگ ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عدم مساوات کی جڑیں کتنی گہرائی تک سرایت کرچکی ہیں۔ اگرچہ شہروں میں زیادہ تر خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں مگر انجینئرنگ اور میڈیسن جیسے شعبوں میں خواتین کی افرادی قوت کم ہوتی ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بہت کم ملازمتیں کرتی ہیں۔ اس سے خواتین معاشی طور پر منحصر ہوجاتی ہیں جہاں وہ مرد سرپرستوں پر انحصار کرتی ہیں یا الگ تھلگ، پسماندہ زندگی گزارتی ہیں۔
پاکستان میں بہت سی خواتین کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا پڑتا ہے لیکن ان کی کہانیاں بہت کم سنائی جاتی ہیں اور ان کے تجربات کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ مردوں کی طرف سے ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہے اور دوسری خواتین کی طرف سے انہیں خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی شدید مشکل ہو جاتی ہے۔
ان خواتین کو بااختیار بنانے میں مدد کے لیے حکومت کی جانب سے سپورٹ سسٹم بنانے کے بجائے، ان خواتین کو اکثر چیریٹی کیسز کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ مردوں کو ترس کھا کر ان سے شادی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ گویا وہ کم تر مخلوق ہیں جو عزت یا مساوی رشتوں کی مستحق نہیں ہیں۔
پاکستانی خواتین کی اگلی نسل یعنی جنریشن زی کا مستقبل امید افزا نظر نہیں آتا۔ حکومتی اداروں کی سختی اور قدامت پسند عقائد اور کھوکھلی ترقی پسند پالیسیز کے درمیان ٹکراؤ کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔ نتیجتاً پاکستان نچلے درجوں پر موجود رہے گا۔
بہت سے مرد، عورت مارچ جیسے مظاہروں کو مسترد کرتے ہیں اور خواتین کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کوششیں نہیں کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ سچ ہے کہ پاکستان میں مردوں کو اپنے طور پر جدوجہد کرنا پڑتی ہے لیکن ذاتی مسائل کی بنا پر دوسروں کے لیے مہربانی اور احترام کا احساس نہیں کرنے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
ایک پدرشاہی معاشرہ اس وقت خطرناک ہو جاتا ہے جب اس کے مرد حقیقی طور پر خواتین سے نفرت کرنے لگتے ہیں، صرف اس وقت خواتین کی عزت کرتے ہیں جب انہیں خاندانی یا سماجی ذمہ داریوں کی وجہ سے ایسا کرنا پڑتا ہے اور جب بھی وہ مجبور نہیں ہوتے تو وہ خواتین کی بے عزتی کرتے ہیں۔
یہ رویہ کام کے مقامات، گھروں، گلیوں اور یہاں تک کہ میڈیا میں بھی نظر آتا ہے جہاں خواتین کے ساتھ اکثر حقارت بھرا کا سلوک کیا جاتا ہے۔ سیاسی رہنما شاذ و نادر ہی صنفی بنیاد پر تشدد کو ترجیح بناتے ہیں، وہ اسے صرف ایک بدقسمتی حقیقت کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ یہ ایک بحران ہے جس کے نمٹنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ دشمنی صرف ساختی نہیں بلکہ اس کا نفسیاتی تعلق بھی ہے۔ بہت سے پاکستانی مرد ان خواتین سے نالاں ہوتے ہیں جو کامیاب ہوتی ہیں، اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوتی ہیں یا روایتی کرداروں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہیں۔ یہ ناراضی اکثر خواتین کے ساتھ آن لائن بدسلوکی سے ظاہر ہوتی ہے، خواتین صحافیوں، کارکنان اور سیاست دانوں کو صرف اپنی رائے شیئر کرنے پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کی دھمکیوں کا باقاعدگی سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انٹرنیٹ میں شناخت ظاہر نہ ہونا چیزوں کو مزید خراب کرتا ہے جس سے نتائج کی پروا کیے بغیر یہ نقصان دہ رویے بغیر مزید پھیلتے ہیں۔
2025ء میں پاکستان ایک نازک موڑ پر ہوگا جہاں وہ صنفی مساوات کے معاملے میں دنیا کا دوسرا بدترین ملک ہے۔ یہاں خواتین کے حقوق مشروط ہیں اور وہ انہیں صرف اس صورت میں دیے جاتے ہیں جب سہولت محسوس ہو لیکن جیسے ہی وہ موجودہ اصولوں کو چیلنج کرنے لگتی ہیں، یہ حقوق ان سے چھین لیے جاتے ہیں۔
سماجی رویوں میں گہری تبدیلی لائے بغیر پاکستان صنفی مساوات کی عالمی درجہ بندی میں یونہی نیچے رہ جائے گا جس سے لاکھوں خواتین کے بہتر مستقبل کی امیدیں کم سے کم ہوجائیں گی۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔
رافعہ ذکریا وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن ہیں۔ وہ ڈان اخبار، الجزیرہ امریکا، ڈائسینٹ، گرنیکا اور کئی دیگر اشاعتوں کے لیے لکھتی ہیں۔ وہ کتاب The Upstairs Wife: An Intimate History of Pakistan کی مصنفہ بھی ہیں۔
انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: rafiazakaria@