کھیل

آئی سی سی نے چیمپئنز ٹرافی سے سائیڈ لائن کردیا تھا، پی سی بی کا الزام، معافی مانگنے کا مطالبہ

سی او او کو موجودگی کے باوجود اختتامی تقریب میں شریک نہیں کیا گیا، آئی سی سی سے کہا ہے کہ وضاحت دی جائے، ترجمان پی سی بی

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل کی اختتامی تقریب میں اپنے نمائندے کو شامل نہ کرنے پر باضابطہ احتجاج کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیف آپریٹنگ افسر سمیر احمد سید جو ٹورنامنٹ کے ڈائریکٹر بھی تھے، اور اتوار کو دبئی انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان فیصلہ کن میچ کے دوران موجود تھے، اس کے باوجود وہ تقریب میں شریک معزز شخصیات میں شامل نہیں تھے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے آئی سی سی کی جانب سے میزبان ملک کی حیثیت سے پاکستان کے کردار کی کھلم کھلا خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے ترجمان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ ’آئی سی سی میں باضابطہ شکایت درج کرائی گئی ہے، جس میں وضاحت طلب کی گئی ہے اور عوامی سطح پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم میزبان ملک کی حیثیت سے پاکستان کے کردار کو نظر انداز کرنے پر حیران ہیں۔‘

آئی سی سی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آئی سی سی کی جانب سے سمیر احمد سید کو تقریب سے باہر کرنے کا فیصلہ جو ٹورنامنٹ ڈائریکٹر اور پی سی بی چیئرمین کے نامزد نمائندے تھے، اس کے اپنے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر کی خلاف ورزی ہے۔

یہ کھیل کے عالمی اسٹیک ہولڈرز کے لیے اصول، شفافیت اور احترام کا معاملہ ہے۔

سمیر احمد سید نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کی جگہ فائنل میں شرکت کی تھی، جنہیں ابتدائی طور پر آئی سی سی نے مدعو کیا تھا لیکن وہ بیماری کی وجہ سے سفر نہیں کرسکے تھے۔

آئی سی سی نے میڈیا کے سوالات کے جوابات میں کہا کہ اس کا پروٹوکول بورڈ کے صدر، نائب صدر، چیئرمین یا سی ای او کا اسٹیج پر ہونا ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس نے اس حقیقت کو نظر انداز کردیا ہے کہ پی سی بی کے پاس سی ای او نہیں تھا اور سی او او کو چیئرمین کے بعد دوسرے نمبر کا درجہ دیا جاتا ہے۔

آئی سی سی کی دلیل بھی کمزور دکھائی دیتی ہے، کیونکہ بھارتی کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے سیکریٹری دیوجیت سیکیا بھی اپنے پیش رو اور موجودہ آئی سی سی صدر جے شاہ اور بی سی سی آئی کے صدر راجر بنی کے ساتھ اسٹیج پر موجود تھے۔

پی سی بی اس واقعے کو آئی سی سی کی ’بار بار کی جانے والی غلطیوں‘ میں سے ایک قرار دیتا ہے، جس میں سے ایک بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان گروپ مرحلے کے میچ کی لائیو فیڈ پر چیمپئنز ٹرافی کے آفیشل لوگو میں پاکستان کا نام شامل نہ ہونا اور آسٹریلیا اور انگلینڈ کے میچ سے قبل قذافی اسٹیڈیم میں بھارتی قومی ترانہ بجایا جانا تھا۔

ترجمان پی سی بی کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کی بار بار کی غلطیوں، دوہرے معیار اور سلیکٹڈ گورننس نے اس کی ساکھ پر سنگین شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اپنے ہی ٹورنامنٹ میں میزبان ملک کو سائیڈ لائن کرکے گورننگ باڈی نے ایک بار پھر غیر جانبداری اور شفافیت کے فقدان کا مظاہرہ کیا ہے۔

ہم نے ایک مکمل عوامی وضاحت اور یقین دہانی کا مطالبہ کیا ہے کہ اس طرح کے متعصبانہ اور غیر منصفانہ سلوک دوبارہ نہیں ہوں گے۔

پی سی بی کرکٹ کی گورننگ باڈی سے پیشہ ورانہ مہارت، شفافیت اور مساوی نمائندگی کی توقع رکھتا ہے۔

پی سی بی نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ یہ صرف پریزنٹیشن تقریب کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ بین الاقوامی کرکٹ میں احترام، سالمیت اور منصفانہ گورننس کے بنیادی اصولوں کے بارے میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا دیکھ رہی ہے، کیا آئی سی سی آخر کار پیشہ ورانہ مہارت کو برقرار رکھے گا یا کرکٹ کی عالمی سالمیت کی قیمت پر منتخب مفادات کو پورا کرتا رہے گا؟

بھارتی حکومت کی جانب سے سیکیورٹی خدشات کے باعث اپنی ٹیم کو سرحد پار جانے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد بھارت نے اپنے تمام میچز دبئی میں کھیلے جس کے بعد میزبان پاکستان کو سیمی فائنل اور فائنل میں سمجھوتہ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس فیصلے کے نتیجے میں شیڈولنگ کے مسائل پیدا ہوئے جبکہ بھارت کو ایک بیس رکھنے کی اجازت بھی دی گئی جبکہ دیگر ٹیموں کو اس کے مطابق اپنے سفری شیڈول کو ایڈجسٹ کرنا پڑا۔