پاکستان

پلڈاٹ کا اہم فورم کے طور پر قومی سلامتی کمیٹی کے کردار کو دوبارہ فعال کرنے کا مطالبہ

مارچ 2024 میں اقتدار سنبھالنے والی موجودہ مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے گزشتہ سال میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) نے سیکیورٹی پالیسی پر غور و خوض کے لیے ایک اعلیٰ سول ملٹری فورم کے طور پر قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کے کردار کو دوبارہ فعال اور بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 5 مارچ 2024 سے 4 مارچ 2025 تک کے ٹائم فریم کے لیے پِلڈاٹ کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی (این ایس سی) کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ پاکستان کے گورننس ڈھانچے میں پریشان کن رجحان کو اجاگر کرتا ہے۔

این ایس سی، جو کہ 2013 میں قومی سلامتی سے متعلق فیصلہ سازی کے بنیادی فورم کے طور پر قائم ہوئی تھی، نے پورے سال کے دوران ایک بھی اجلاس نہیں بلایا۔ لہٰذا 25-2024، این ایس سی کے قیام کے بعد پہلا سال بن گیا جب کمیٹی نے ایک بار بھی اجلاس نہیں بلایا۔

اگرچہ وفاقی کابینہ کا اجلاس باقاعدگی سے ہوتا ہے لیکن اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ کابینہ کمیٹی برائے دفاع جو این ایس سی کی تشکیل سے قبل ایسا فورم فراہم کرتی تھی، کو دوبارہ فعال کیا گیا ہے۔

تاریخی طور پر، این ایس سی نے سلامتی کے امور پر سول-ملٹری مشاورت کے لیے ملک کے اہم پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا ہے۔ کمیٹی کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت مختلف انتظامیہ کے تحت مختلف ہوتی ہے، کچھ حکومتیں باقاعدہ اجلاس بلاتی ہیں اور دیگر اس کے کردار کو نظر انداز کرتی ہیں۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف نے 17-2013 کے دوران اپنے دور حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے آٹھ اجلاس بلائے، جبکہ شاہد خاقان عباسی (اگست 2017-مئی 2018 کے دوران) نے اس تعداد میں نمایاں اضافہ کیا اور اوسطاً ہر سال تقریباً 10 اجلاس ہوئے۔

سابق وزیر اعظم عمران خان (22-2018) نے سالانہ اوسطاً تین این ایس سی اجلاس بلائے، جب کہ شہباز شریف نے 2022 سے 2023 تک اپنے سابق ​​دور حکومت میں ہر سال اوسطاً پانچ اجلاس بلائے۔

تاہم مارچ 2024 میں اقتدار سنبھالنے والی موجودہ مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کے گزشتہ سال (2024) میں قومی سلامتی کمیٹی کا ایک بھی اجلاس نہیں ہوا۔ این ایس سی کے اجلاسوں کی عدم موجودگی سیکیورٹی کے واقعات پر حکومت کے ردعمل سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ این ایس سی بلانے کے بجائے حکومت نے فوجی قیادت والے فورمز جیسے کور کمانڈرز کانفرنس اور نیشنل ایکشن پلان کی اپیکس کمیٹی پر انحصار کیا ہے۔ اس نے منظم پالیسی سازی میں سلامتی کمیٹی کے کردار کو مزید پس پشت ڈال دیا ہے۔

پلڈاٹ نے مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں ادارہ جاتی قومی سلامتی کے نقطہ نظر کا فقدان جمہوری نگرانی کو کمزور کرتا ہے اور منظم مشاورت کے ذریعے سلامتی کے خطرات کا مؤثر جواب دینے کی ملک کی صلاحیت کو محدود کرتا ہے۔

اس نے نوٹ کیا کہ این ایس سی کو نظر انداز کرنے اور غیر روایتی فورمز کا اضافہ قومی سلامتی کی پالیسی سازی میں تعاون اور ہم آہنگی کی کمی کا باعث بن سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں موجودہ سیکیورٹی چیلنجز بڑھ سکتے ہیں اور نئے پیدا ہو سکتے ہیں۔