نقطہ نظر

بگلا پکڑنے کی ترکیب

مولانا فضل الرحمان پاکستان کے ان گھاگ سیاستدانوں میں سے ہیں جن کا سر ہر وقت کڑھائی اور انگلیاں گھی سے سنی رہتی ہیں

میری عمر اس وقت قریباً پانچ سال کی تھی جب میں نے پہلی دفعہ بگلا دیکھا، بچہ ہی تو تھا بس دل مچل گیا کہ کسی طرح اسے پکڑ لوں. والد صاحب بھی ساتھ ہی تھے اس لئے جھٹ فرمائش داغ دی انہوں نے جو ترکیب بتائی وہ کچھ یوں تھی.

ایک موم بتی جلا کر دبے قدموں سے بگلے کے پیچھے جا کر کھڑے ہو لیکن یاد رہے کہ قدم اتنے دھیمے ہونے چاہییں کہ وہ تمہاری آمد نہ جان سکے اور پھر بڑی ہی احتیاط سے اس موم بتی کی موم اسکی آنکھوں پر ٹپکانا اس سے اسکی آنکھوں پر ایک پرت جم جائے گی اور وہ دیکھنے کے قبل نہیں رہے گا بس بوری میں ڈال لینا اور گھر لا کر موم کھرچ لینا تاکہ وہ دیکھنے کے قابل ہو سکے.

اس ترکیب کو سننے کا بعد مجھے جب بھی بگلا نظر آتا تو ایک گہری سانس لے کر رہ جاتا. ہمارے سیاست دان بھی آج کل ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کے لئے کچھ اسی قسم کی ترکیبیں بتاتے پائے جا رہے ہیں. انکے لئے بھی شائد قوم کا ذہنی معیار ایک پانچ سالہ بچے جتنا ہی ہے.

ملک کی تمام قیادت ایک آل پارٹی کانفرنس میں سر جوڑ کر بیٹھی اور بگلا پکڑنے کی ترکیب ایسے نکال کر لائی جیسے مداری ہیٹ سے خرگوش برآمد کرتا ہے.

یہ بگلا جسے اس کانفرنس کی  قرارداد میں 'اسٹیک ہولڈر' کہا گیا تھا اس کو پکڑنے کی حسرت تمام ہی سیاستدانوں کے دل میں مچل رہی ہے ہر کوئی اس من موہنے بگلے کی 'اٹھکھیلیوں' کو نظرانداز کر کے اسکو رام کرنے کے درپے ہے. پر بگلے نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں بلکہ یہ بگلا تو شوقین ہی 'پکی' گولیاں کا ہے وہ بھی فولادی!! اسی لئے تو ہم بیوقوفوں کی طرح سر جھکائے بیٹھیں ہیں اور یہ ٹھونگوں پر ٹھونگیں مارے جا رہا ہے. اور بجائے اس کے حملوں کا جواب دینے کے ہم اسے پکڑنے کی ترکیبیں عوام کو ایسے ہی سنائے جا رہے ہیں جیسے مرے والد صاحب نے ایک پانچ سال کے بچے کو سنائی تھی.

مولانا فضل الرحمان پاکستان کے ان گھاگ سیاستدانوں میں سے ہیں جن کا سر ہر وقت کڑھائی اور انگلیاں گھی سے سنی رہتی ہیں. آپ کافی عرصے سے بگلا پکڑنے کی ترکیب بتاتے آئے ہیں لیکن اب آپکی حالت کچھ ایسی ہے جیسی اس بچے کی ہوتی ہے جو مصر ہوتا ہے کہ پہلی با ری وہی لے گا.

مولانا کی تازہ ترکیب یہ ہے کہ بگلے سے بات چیت کے لئے جرگے کو استعمال کیا جائے جو کہ یقیناً انکا ہی ہو گا ورنہ وہ اس بات چیت میں کوئی کردار ادا نہیں کریں گے. مولانا طالبان سے بات چیت کے لئے اپنے آپ کو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے طور پر دیکھنے کے لئے اتنے بےچین ہیں کہ انہوں نے تحریک انصاف کو بھی اس جرگے میں شامل کرنے کا عندیہ دیا ہوا ہے جس سے مولانا کی خواہش کی 'شدت' کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے.

اس بگلے کو پکڑنے کی دوسری ترکیب تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان صاحب نے پیش کی ہے جسکے مطابق طالبان کو پاکستان میں اپنا دفتر کھولنے کی اجازت ملنی چاہئے. اب پتا نہیں اگر یہ دفتر کھل جاتا ہے تو اسکی تشہیر کیسے ہو گی. شائد اخبارات میں اشتہار شائع ہوں گے کہ 'فلاں جگہ طالبان کا باقاعدہ دفتر کھل چکا ہے مخالفین کے لئے خودکش حملہ آور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں' یا ٹی وی پر اشتہارات چلیں گے کہ 'خبردار ہماری کوئی اور برانچ نہیں ہے، کسی بھی دہشت گرد حملے کی صورت میں ہم سے تصدیق ضروری ہے کہ آیا یہ ہماری کاروائی ہے کہ نہیں' وغیرہ وغیرہ.

بگلے کو پکڑنے کے لئے جو ترکیب کافی عرصے سے فوج کی اعلی قیادت استعمال کر رہی ہے اس کے مطابق بگلوں کو اچھے اور برے بگلوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے اچھے بگلوں کو آگے کے وقتوں کے لئے رکھ چھوڑا جائے اور برے بگلوں کو چن چن کر پکڑ لیا جائے یہاں پر شدت کے ساتھ سابق وزیر اعلی بلوچستان جناب اسلم رئیسانی یاد آ رہے ہیں اگر انکی نظر سے دیکھا جائے تو بے اختیار یہ کہنے کو جی کرتا ہے کہ 'بگلا بگلا ہوتا ہے چاہے اچھا ہو یا برا!'

حکومت کا حال اس خاموش طبع بچے کی طرح کا ہے جسے بھری محفل میں اسٹیج پر کھینچ کر کھڑا کر دیا ہو اور تقریر کرنے کے لئے کہہ دیا گیا ہو، نتیجہ صاف ظاہر ہے. وہ کہتے ہیں کہ بگلے کو مزاکرات کے زریعہ ہی پکڑنا چاہئے، لیکن کیسے؟ اسکا جواب ابھی تک نہیں آیا.

نہ کوئی ایجنڈا ہے، نہ پالیسی اور نہ ہی اتنی ہمت کہ پاکستان سے بگلوں کے صفائے کا اعلان کر دیا جائے. جب کوئی نیا دہشت گرد حملہ ہوتا ہے کبھی ادھر ٹکر ماری جاتی ہے تو کبھی ادھر. لگتا ہے کہ موم بگلے کی آنکھوں پر نہیں حکومت کی آنکھوں پر گری ہوئی ہے.

جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے اتنی ہی بھانت بھانت کی ترکیبیں سامنے آ رہی ہیں اور مزید آتی جائیں گی اور قوم پانچ سال کے بچے کی طرح گہری سانسیں لیتی رہ جائے گی اس وقت تک جب تک انکی گنتی ختم نہیں ہو جاتی لیکن شائد پھر بھی بگلا پکڑنے کی 'اصلی تے وڈی' ترکیب سامنے نہ آ سکے کیونکہ شائد اس بگلے کو پکڑا اور قابو نہیں کیا جا سکتا.

اس بگلے کو پکڑنے کی ترکیب ہی یہی ہے کہ اسکو مار دیا جائے. لیجئے میں نے بھی بیٹھے بٹھائے ایک ترکیب دے دی لیکن یہ ترکیب میری نہیں بس اڑتے اڑتے یہ ترکیب کانوں میں پڑ جاتی ہے البتہ اس ترکیب پر کوئی حق جمانے والا نہیں سو میں نے سوچا کہ میں ہی جما لوں.


علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔