قربانی نصف ایمان کی!
لیجئے بڑی عید بھی آن پہنچی. جانوروں کی منڈیوں میں رونق لگی ہوئی ہے اور گھروں میں گوشت کی نت نئی ہانڈیوں پر تبادلۂ خیال ہو رہا ہے. ابھی سے بکرے کی ران اور دستیاں طے ہو گئی ہیں کہ کہاں کہاں بھیجی جائیں گی، جو کہ خیال ہے کہ اس قربانی کی عبادت کی روح کے خلاف ہے.
ادھر جانور منڈیوں سے گھروں کا رخ کر رہے ہیں اور گلی محلوں میں چھوٹے بچے اپنے اپنے جانوروں کی سیوا میں لگے ہوۓ ہیں ساتھ ہی ساتھ چھریاں چاقو بھی نکل آئے ہیں، پائے کب تک بھنوا کر آ جانے چاہئیں یہ بھی طے ہو گیا ہے اور مرد حضرات بھی باربی کیو کے انتظام میں جڑے ہوۓ ہیں.
پھر عید کے دن قربانی کے ساتھ ساتھ ہم اپنا آدھا ایمان بھی قربان کر کے غلاظت و تعفن سے اپنے ماحول کو گندا کر کے اس خوشی کے موقعہ کا سارا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں.
'صفائی نصف ایمان ہے' کے فرمان نبوی کے باوجود ہم اس دینی فریضے کی ادائیگی میں قدم قدم پر اسکے برخلاف کام کر رہے ہوتے ہیں ابھی تک ہماری جانوروں کی منڈیوں میں کوئی باقاعدہ نظام نہیں بن سکا کہ صفائی ستھرائی کا انتظام کیسے کیا جائے گا.
منڈی تو جانوروں کی لگی ہوتی ہے تو ظاہر ہے گند بھی پھیلے گا لیکن انسانوں کی اشرف المخلوقیت جانوروں کی منڈیوں میں مچے ہڑبونگ میں کہیں گم ہو جاتی ہے. نہ خریداروں کو اس بات کا خیال کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو جانوروں کے درمیان بغیر حفاظتی تدابیر مثلا ماسک اور دستانے وغیرہ کے بغیر لئے چلے آ رہے ہیں اور نہ حکومت جو صرف بیوپاریوں کو اپنے جانور فروخت کرنے کے لئے جگہ فراہم کر کے سمجھتی ہے کہ اسکا فرض ادا ہو گیا، کو کوئی سروکار کہ ان جیسے اقدامات کو یقینی بنائے. کونگو وائرس اور اس جیسی دوسری مہلک بیماریوں کی تشہیر سے ہی خالی خولی کام چلا لیا جاتا ہے.
اصل ماحول پر ضرب تو بروز عید پڑتی ہے جب پہلے مرحلے میں قربانی کے جانور کا خون چھوٹے محلوں میں گلیوں میں اور بڑی سوسائٹیوں میں لان اور گیراج میں بہا دیا جاتا ہے شام ڈھلنے تک اتنی بدبو پھیل چکی ہوتی ہے کہ پورا شہر ایک بہت بڑے مذبح خانے کا منظر اور مہک دے رہا ہوتا ہے.
اگر یہی قربانی سے پہلے مٹی میں گڑھا کھود کر اس میں قربنی کا خون دبا دیا جائے تو نا صرف بو سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ مختلف النوع حشرات اور اڑنے والے مچھر مکھیوں کا بندوبست بھی کیا جا سکتا ہے.
دوسری طرف جانوروں کے اندرونی اعضاء کبھی خالی پلاٹوں میں ماحول کو معطر کر رہے ہوتے ہیں یا کوڑے کے ڈھیر پر آوارہ کتے بلیوں کو دعوت عام دے رہے ہوتے ہیں زیادہ سے زیادہ عید کے ہفتہ کے اندر اندر ہی اکثر یہ کھلے گندے نالوں میں تیرتے نظر آتے ہیں.
حکومت کی جانب سے اگرچہ انکو ٹھکانے لگانے کا بندوبست بھی کیا جاتا ہے لیکن ایک طرف محدود عملہ اور وسائل دوسری جانب لا محدود لاپرواہی، نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہمیشہ سے ہمارے ہاں ہوتا چلا آیا ہے یعنی جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں ان پر ہفتوں مکھیاں بھنبھناتی ہیں.
قربانی کے جانوروں کا بچا کھچا چارہ اور ہڈیاں وغیرہ بھی یا تو کوڑے کے ڈھیر پر سجا دی جاتی ہیں یا پھر گٹروں میں بہا دی جاتی ہیں جس سے محکمہ صفائی کی اچھی خاصی پریڈ ہو جاتی ہے. دوسری جانب خالی پلاٹوں میں انکو پھینکنے سے ان پرندوں کو دعوت عام ملتی ہے جو ایک ماحول کے دانہ دنکا چگنے والی چڑیوں کے شکاری ہوتے ہیں اور انکی آمد اس ماحول کے نازک توازن کو درہم برہم کر دیتی ہے.
اب آئیے کھالوں کی طرف، لوگ تو جانوروں کی کھالیں عطیہ کر کے فارغ ہو جاتے ہیں لیکن جگہ جگہ لگائے گئے ان کو اکھٹا کرنے کے کیمپوں کے منتظمین انہیں ٹرافی کی طرح رات گئے تک سامنے سڑک پر سجائے رکھتے ہیں جس پر مکھیاں عیش کرتی ہیں اور چوک چوراہے بدبو کا منبع بن جاتے ہیں.
یہ ان تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کھالوں کو ہاتھ کے ہاتھ اپنے دفاتر بھجوائیں جہاں انکو صیح طرح سے ذخیرہ کیا جا سکے. یہ چوک اور چوراہے صاف ستھرے رہیں تو عید کا مزہ دوبالا ہو جائے.
عید کی دوپہر سے ہی جگہ جگہ قائم پائے بھوننے والوں کے اڈوں پر رش نظر آنے لگتا ہے جہاں جانوروں کے بالوں کو انسانی جاں کے لئے مہلک گیسوں کی مدد سے صاف کیا جاتا ہے جس سے نہ صرف ان کی غذایت ماری جاتی ہے بلکہ انکو جلانے کی بدولت ان میں کینسر پیدا کرنے والے اجزا بن جاتے ہیں. جہاں جہاں یہ اڈے ہوتے ہیں وہاں سے گزرنا ایک امتحان سے کم نہیں ہوتا.
پچھلے کچھ عرصے سے گیس کے شعلے سے بال جلانے پر تو سختی ہے لیکن پھر بھی یہ کام جہاں ہاتھ پڑے ہوتا نظر آتا ہے ورنہ اسکے متبادل کے طور پر پرانے ٹائر جلا کر بھی یہ کام کیا جا رہا ہے جو کہ بذات خود اتنا ہی خطرناک ہے جتنا گیس سے جلانا.
قربانی کیجئے اور ضرور کیجئے لیکن اسکے ساتھ اپنے نصف ایمان کو داؤ پر مت لگائیں، اپنے ماحول پر بوجھ مت بنیے اور نا ہی حفظان صحت کے اصولوں پر پائے کھانے کو ترجیح دیجئے کیں کہ جان ہے تو جہان ہے.
علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔