نقطہ نظر

'ضرورت برائے 'امیر

مستقل امیر کے انتخاب کے لئے طالبان شوری نے فیصلہ کیا ہے کہ اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر اشتہار دیے جائیں

حکیم اللہ محسود کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان میں جو قیادت کا بحران سامنے آیا اسے حل کرنے کے لئے طالبان شوریٰ سر جوڑ کر بیٹھ گئی کیونکہ بیت الله محسود  کے وقت کے مقابلے میں آج تحریک طالبان پاکستان ایک بڑی قوت بن چکی ہے جسکا نیٹ ورک امریکہ تک پھیلا ہوا ہے.

خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا طالبان میں قیادت کے بحران کا، ابتدائی خبروں کے مطابق خان سید سجنا کو امیر چن لیا گیا تھا لیکن بعد میں بتایا گیا کہ ابھی مستقل امیر کا انتخاب نہیں ہوا ہے اور عصمت الله شاہین کو عارضی امیر مقرر کیا گیا ہے. 'شاہین' صاحب کا کردار محض نگران امیر کا ہے جو چناؤ کے بعد قیادت منتخب نمائندے کو سونپ کر اپنا فرض پورا کر کے گھر چلے جائیں گے.

دوسری جانب مستقل امیر کے انتخاب کے لئے طالبان کی شوری نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کے قومی اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینلز پر اشتہار شائع اور نشر کیے جائیں گے جس میں نئے امیر کے لئے درخواستیں  مانگی جائیں گی. مجوزہ اشتہار کا متن کچھ یوں ہے:

'ضرورت برائے امیر تحریک طالبان پاکستان'

ضرورت ہے پاکستان کی تحریک طالبان کے  امیر کی. اگرچہ اس امارت  کے لئے اہلیت کا کوئی خاص معیار تو مقرر نہیں لیکن امیدواروں میں مندرجہ ذیل خصوصیات کا پایا جانا انکی درخواستوں کو چار چاند لگا سکتا ہے!

1. امیدوار کا خدائی فوجدار ہونا۔

2. ٹیڑھا دماغ اور اوندھی منطق۔

3. اگر چہرے پر داڑھی نہ ہو تو کم از کم پیٹ میں ضرور ہو (اس داڑھی کا تعلق دینی شعائر سے ہرگز نہیں ہے)۔

4. ملکی اور غیر ملکی واقعات کو صرف اور صرف سازشی عینک چڑھا کر دیکھتا ہو.

5. عوامی جذبات کو ابھارنے میں مہارت رکھتا ہو.

6. اپنی ویڈیو میں خود اداکاری کرنے سے ہچکچاتا نہ ہو۔

7. دیگ سے زیادہ چمچہ گرم ہونے کے مصداق طالبان سے ہمدردی میں ان سے پانچ ہاتھ آگے ہو.

امیدوار اپنی درخواستیں دس نومبر تک شمالی وزیرستان میں پھنکوا دیں یا اپنی امیدواری کا اعلان اپنی تحریروں یا تقریروں کے ذریعہ درپردہ بھی کر سکتے ہیں. کامیاب امیدواروں کو انٹرویو کے لئے تحریک خود ہی رابطہ کر لے گی.

اس اشتہار کی اشاعت کے بعد امید ہے کہ کافی درخواستیں جمع ہو جائیں گی لیکن جن تین امیدواروں نے اپنے آپ کو تحریک طالبان میں قیادت کے خلا کو پر کرنے کے لئے اپنی تقریروں، تحریروں اور طالبان سے ہمدردی دکھانے کے ذریعہ پہلے ہی اہلیت واضح کر دی ہے اور پاکستان میں انکے غیر سرکاری ترجمان کی سی حیثیت رکھتے ہیں ان میں میڈیا سے جناب انصار عباسی، سیاست سے جناب عمران خان اور سرکاری اہلکار کم صحافی کم دانشور جناب اوریا مقبول جان شامل ہیں اب بس کمی انکی جانب سے باقاعدہ درخوست دینے میں ہے.

اس میں جناب عمران خان صاحب نے طالبان سے ہمدردی اور انکا پاکستان میں باقاعدہ دفتر کھلوانے کے لئے آواز اٹھانے اور امریکہ مخالفت میں مہارت رکھنے کی بدولت اپنے آپ کو اس امارت کے لئے اہل سبط کر دیا ہے اور تو اور جناب نے حال ہی میں NATO سپلائی بند کروانے کے لئے خیبر پختونخوا میں اپنی حکومت تک قربان کرنے کا اعلان کر دیا ہے شائد انہیں امید ہوگی کہ ایک جگہ حکومت چھوڑ کر وہ دوسری جگہ امارت سنبھال لیں گے.

جناب انصار عباسی اور اوریا مقبول جان صاحب بھی طالبان سے ہمدردی اور انکے خودساختہ غیر سرکاری ترجمان ہونے کی وجہ سے اس امارت کے لئے مضبوط امیدواروں میں سے ہیں. ان دونوں کی اگر باقاعدہ درخواستیں گئیں تو اس میں طالبان کے اشتہار میں ڈھونڈی جانے والی اکثر صلاحیتیں بدرجہ اتم نظر آئیں گی.

ابھی انکی جانب سے عمران خان کی طرح کا ردعمل تو سامنے نہیں آیا ہے لیکن یقیناً انکی 'انتخابی مہم' بھی بس شروع ہونے کو ہے. عوامی جذبات کو ابھارنے کے لئے اپنی تقریروں اور تحریروں سمیت میڈیا پر اپنی باقاعدہ حاضری بھی انکی ممکنہ درخواستوں کو وزنی کر سکتی ہے. امید ہے کہ طالبان شوری کو ان تینوں میں سے چناؤ کے وقت خاصی دقت پیش آئے گی اور اس سلسلے میں پھوٹ پڑنے اور دھڑے بندی ہونے کا بھی خاصا امکان ہے.

ویسے تو طالبان سے حکومت کے ہونے والے مجوزہ مزاکرات کے امکانات خاصے معدوم ہیں لیکن اگر کسی موقعہ پر یہ مزاکرات ہوتے بھی ہیں اور اگر ان صاحبان میں سے کسی نے تحریک طالبان کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہو تو حکومت کو لگ پتا جائے گا. یقیناً حکومت کو اتنی مشکلات حکیم اللہ سے مزاکرات کے وقت پیش نہ آتیں.

ان صاحبان کا حکیم اللہ جیسے دہشت گرد کی ہلاکت پر ابھی تک سامنے آنے والا واویلا یا جو آئندہ دنوں میں انکے ماضی کے خیالات کو سامنے رکھ کر قیاس کیا جا سکتا ہے اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ  یقیناً ابھی اس قسم کے  واویلا میں اور بھی زیادہ اضافہ سامنے آ سکتا ہے.

افسوس صرف اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے آج تک جو سیاسی شخصیت خودکش حملوں میں شہید ہوئی ہیں اس پر تو کبھی غلطی سے بھی اتنا سخت ردعمل ظاہر نہیں کیا جتنا اس ہلاکت پر کیا ہے.

غالب امکان یہی ہے کہ جیسے پاکستان میں دہشت گردی کو ڈرون حملوں سے باندھ  دیا گیا تھا ویسے ہی دشستگردوں کے ٹھیکیدار اب آئندہ ہونے والی دہشت گردی کو حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے باندھ  دیا جائے گا اور ایک دوڑ لگ جائے گی کہ کون سب سے زیادہ زہر اگل سکتا ہے، حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر سکتا ہے اور کون الٹی سیدھی تاویلوں اور نت نئی  سازشوں کو جنم دے سکتا ہے اور یہ سب کیوں نہ ہو آخر معامله تحریک طالبان کی غیر سرکاری ترجمانی کا نہیں بلکہ سرکاری امارت کا ہے!


علی منیر

علی منیر میڈیا سے منسلک ہیں اور سیاسیات اور سماجیات کے موضوعات پر بلاگنگ کرتے ہیں.

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔