نئے سیلاب سے پرانی آفت کے شکار افراد کی مشکلات میں اضافہ، سروے
اسلام آباد : حالیہ سیلاب نے سرکاری اور نجی انفراسٹرچکر کو بری طرح متاثر کیا ہے تاہم 2010 سے 2012 کے درمیان آنے والے سیلابوں کے حوالے سے سامنے آنے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ برادریوں میں کچھ ریکوری ہوئی ہے مگر تباہ شدہ خاندان دیگر لوگوں کے مقابلے میں دو ، تین گنا پیچھے رہ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ایک مشترکہ سروے، جس میں 2010 اور 2012 کے سیلاب سے متاثرہ گھرانوں کی حالت کو سامنا لایا گیا ہے، میں بتایا گیا ہے کہ یہ خاندان تاحال " انتہائی مشکل اور پیچیدہ ذہنیت کے ساتھ" کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔
اس سروے کو سیلاب سے سب سے زیادہ سات اضلاع میں کیا گیا اور اس میں پانچ ہزار سے زائد گھرانوں کو شامل کیا گیا، جبکہ ان اضلاع کے ایسے 770 خاندان سے بھی رائے لی گئی جو سیلاب سے متاثر نہیں ہوئے، تاکہ موازنہ کیا جاسکے۔
سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ ایسے گھرانے جن کے اندر قدرتی آفات اور فوڈ سیکیورٹی کے خطرات کے مقابلے اور اس سے نکلنے کی صلاحیت کم تھی، یا جو روزانہ کماتے تھے، غیر زرعی سرگرمیوں میں شامل اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
بدھ کو جاری ہونے والے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بلوچستان کے بہت کم گھرانے فوڈ سیکیورٹی اور ذریعہ معاش کی مشکلات سے نکل پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
تیس فیصد گھرانوں نے بتایا کہ انہیں 2010 کی تباہی سے باہر نکلنے میں اس لیے زیادہ مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ ان پرگزشتہ دہائی یا اس سے پہلے بھی ایسا ہی المیہ گزر چکا تھا۔
پاکستان کو 2010 سے 2012 کے دوران مسلسل تین سال تک سیلاب کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ مون سون کی غیرمتوقع بارشیں تھیں۔
دو ہزار دس کے سیلاب میں دو ہزار افراد ہلاک، سولہ لاکھ مکانات تباہ اور پندرہ لاکھ مویشی مارے گئے۔
بیس کروڑ افراد کی زندگیاں اس سیلاب سے متاثر ہوئیں اور ملک کا بیس فیصد حصہ سیلابی پانی میں ڈوب ہوگیا جس کے نتیجے میں بہت زیادہ نقصانات ہوئے، مگر اس کے بعد بھی سیلاب نے 2011 اور 2012 میں دیہی سندھ، پنجب اور بلوچستان کو دوبارہ نشانہ بنایا، جس سے طویل المدت ریکوری منصوبے بری طرح متاثر ہوئے۔
محدود ریکوری اور مواقعوں کی کمی کے باعث لوگوں کو بھاری شرح سود پر قرضے لینا پڑے، خوراک کی کمی تاحال بہت زیادہ ہے اور صرف پندرہ فیصد نے مناسب غذا ملنے کی تصدیق کی، بیس فیصد ناقص غذائیت کی شکایت کرتے ہیں جبکہ 65 فیصد آخری لکیر پر کھڑے ہیں۔
بلوچستان کے خاندان اور روز کمانے والے افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔
سروے میں مزید بتایا گیا ہے کہ 46 فیصد گھرانے اپنی آمدنی کا ساٹھ فیصد سے زائد حصہ صرف خوراک پر ہی خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان پر بھاری قرضوں کا بوجھ تاحال ہٹ نہیں سکا ہے۔
مجموعی طور پر مناسب فنڈز نہ ہونے کے باعث بحالی کا کام نہ ہونے کے برابر رہا اور صرف 44 فیصد نے خوراک ملنے کی تصدیق کی۔