سپرپاور بنتا انڈیا: جینے کا حق ہے، بیمار پڑنے کا نہیں
دہلی: میٹروپولیٹن شہر میں ایک رکشہ چلانےوالا، اپنے بیٹے کو ایک جان لیوا بیماری سے بچانے کے لئے دن رات پیسے جمع کرنے میں لگا ہوا ہے۔ رقم بھی کوئی معمولی نہیں ہے۔
اس کے بیٹے کے علاج کا خرچ تقریباً پانچ لاکھ روپے مہینہ ہے۔ اتنی بڑی رقم کا انتظام رکشہ چلا کر تو نہیں ہو سکتا، چنانچہ مجبور ہوکر اسے دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑا ہے۔
بدقسمتی سے یہ کسی فلم کا منظر نہیں ہے اور وہ مختلف راستہ دراصل کورٹ کچہری کا ہے۔
اپریل 2014 میں دہلی ہائی کورٹ نے ایک کیس کے تناظر میں دہلی کی حکومت کو جھاڑ پلاتے ہوئے کہا تھا کہ صرف اس لیے کہ کوئی شخص غریب ہے، حکومت اسے مرنے کے لیے نہیں چھوڑ سکتی۔
اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کسی کو غریب کہہ کر اس کی موت کا جواز نہیں تراشا جا سکتا۔
یہ مسئلہ دہلی میں رکشہ چلانےوالی محمد سراج الدین کے سات برس کے بیٹے محمد احمد کا ہے۔ احمد کو گاشر نامی پیچیدہ بیماری ہے۔یہ پیدائشی کیمیائی نقص ہے، جس کے نتیجے میں جگر، تلی، لمف نوڈز اور اعصابی نظام میں چربیلے مرکبات اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ شیر خوارگی میں یہ مرض مہلک ثابت ہوتا ہے ۔عام طور پر اِس بیماری میں تِّلی بَڑھ جاتی ہے۔
اس سے پہلے یہ بیماری احمد کے چار بھائی بہنوں کی جان لے چکی ہے۔ اب احمد کے والدین اپنی پانچویں اولاد کو کھونا نہیں چاہتے اور اس لیے وہ کبھی ہسپتال، تو کبھی کورٹ کے چکر لگارہے ہیں۔
اپریل میں دہلی ہائی کورٹ نے اسی سلسلے میں آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس(ایمس) کو احمد کا مفت علاج کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس بیماری کے علاج میں ہر ماہ ساڑھے چار لاکھ روپے مہینے سے بھی زیادہ کا خرچ آتاہے اور جب احمد کے والدین اتنی بڑی رقم بروقت نہیں جمع کروا پائے تو ایمس کو احمد کا علاج درمیان میں ہی روکنا پڑ گیا۔
یہ درست ہے کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ایمس میں احمد کا علاج دوبارہ شروع ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے خاندان کے لیے راستہ اب بھی آسان نہیں ہوا ہے۔ سرکاری کام میں ہونے والی لڑائی کی وجہ سے علاج کبھی بھی درمیان میں رُک سکتا ہے۔
احمد اس حوالے سے تنہا نہیں ہیں۔ ہندوستان میں ان کے جیسے بے شمار مریض مفلسی کی وجہ سےمعمولی یا پیچیدہ بیماریوں سے ایک طویل جنگ لڑنے پر مجبور ہیں۔
سپرپاور بننے کا خواب دیکھنے والے ملک میں صحت عامہ (پبلک ہیلتھ) سے منسلک بنیادی ضروریات کے لیے ایک غریب خاندان کو سرکاری غیر سرکاری اسپتالوں، اداروں اور عدالتوں کے نامعلوم کتنے چکر لگانے پڑتے ہیں۔
اس طرح کے معاملات میں کئی درخواستیں اور مقدمے دائر کرنے والے دہلی ہائی کورٹ کے وکیل اشوک اگروال کا خیال ہے کہ بھارت میں تعلیم کے حق کے بعد اب صحت کا حق (رائٹ ٹو ہیلتھ) ایکٹ لانے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ایک غریب آدمی کو علاج کے لیے کبھی وزیر اعلٰی تو کبھی وزیر اعظم کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا ہے۔
اسی طرح کی ایک مثال ارچنا کی ہے، جنہیں اپنی بیٹی اننيا کے علاج اخراجات پورے کرنے میں شدید دشواریاں پیش آئیں، جس کے بعد انہیں کون بنے گا کروڑ پتی (كےبی سی ) میں حصہ لینے کا خیال آیا۔
ریاست جھارکھنڈ کے شہر رانچی کی ارچنا نے حال ہی میں مقبول ٹی وی پروگرام کون بنے گا کروڑ پتی میں 50 لاکھ روپے کی رقم جیتی ہے۔ پروگرام کے دوران ارچنا نے بتایا کہ اپنی بیٹی کے علاج کے لیے انہوں نے اس شو میں حصہ لیا۔ ارچنا کی 13 برس کی بیٹی اننيا پیدائش کے وقت سے ہی کرینیوفیشل نامی بیماری میں مبتلا ہے۔ پیدائش کے وقت سے ہی اننيا کی پیشانی میں ہڈی نہیں ہے جس کی وجہ سے اس کے دماغ کا کچھ حصہ باہر نکلا ہوا تھا، اس کی دونوں آنکھوں کے درمیانی فاصلے میں بھی مسئلہ تھا۔ جب اننيا پانچ ماہ کی تھی، تب اس کا پہلا آپریشن ہوا۔ دوسرا آپریشن ساڑھے پانچ سال کی عمر میں ہوا۔ 16 سال کی عمر میں اسے ایک اور اہم آپریشن سے گزرنا ہوگا جس کے لیے ارچنا نے کے بی سی میں حصہ لیا اور 50 لاکھ روپے جیتے۔
ارچنا ایک سرکاری بینک میں ملازم ہیں اور ان کے شوہر ریلوے میں کام کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے لیے اننیا کے آپریشن کے لیے رقم جمع کرنا آسان نہیں تھا۔ ویسے تو سرکاری ملازمت میں ہونے کی وجہ سے ارچنا کو آپریشن کے اخراجات کا 75 فیصد واپس ملنے کا حق حاصل ہے، لیکن اس کے لیے ان کو کافی بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔
ارچنا نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے بینک میں آپریشن کے اخراجات کے لیے درخواست دی، تو اُسے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ یہ رقم کسی بیماری پر نہیں بلکہ بیوٹی پر کیا جانے والا خرچ ہے۔ ان بیٹی کی حالت جاننے کے باوجود بینک والوں نے کرینیوفیشل کو بیماری ماننے سے ہی انکار کر دیا اور پانچ سال کی طویل رسہ کشی کے بعد آخر کار انہیں اخراجات کا 75 تو نہیں البتہ 50 فیصد واپس کیا گیا۔
دوائیوں کا خرچ نکال دیا جائے تو 13 برسوں میں آپریشن پر ان کے لگ بھگ نو لاکھ روپے خرچ ہو چکے ہیں۔
ارچنا نہیں چاہتی تھیں کہ بڑے آپریشن کے لیے انہیں دوبارہ انہی حالات کا سامنا کرنا پڑے اس لیے انہوں نے کون بنے گا کروڑ پتی میں اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا، جس کے لیے وہ دن میں تقریباً پچاس مرتبہ فون کرتی تھیں۔
اننيا کا علاج حیدرآباد کے اپالو ہسپتال میں جاری ہے۔ ارچنا کو یقین ہے کہ معلومات کی کمی کی وجہ سے جمشید پور کے ڈاکٹر بیماری کی جڑ تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے بینک والوں نے ہی اسے بیماری ماننے سے انکار کر دیا تو معاشرے کے باقی طبقے سے کیا توقع کی جائے۔
چہرے کی اس پریشانی کے علاوہ اننيا کو اور کسی بھی طرح کی جسمانی یا ذہنی کمزوری نہیں ہے۔ وہ ایک عام اسکول میں باقی بچوں کے ساتھ پڑھتی لکھتی ہے لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ اسے غیر معمولی سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔
ارچنا پڑھی لکھی اور سرکاری نوکری کرنےوالی باشعور خاتون ہیں جبکہ احمد کے والد سراج الدین تو ایک غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر ترقی کے راستے پر گامزن انڈیا کے دو الگ الگ کنارے ہیں۔
ہر دن کئی نچلے اور درمیانے طبقے کے مریضوں کے مسئلے حل کرنے والے ایڈووکیٹ اگروال بتاتے ہیں کہ پورے ملک میں صحت خدمات کا حال اتنا گھٹیا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے سے ہر چھوٹی بڑی بیماری کے لیے مریض کو براہ راست دلی کے ایمس ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے۔
کئی مرتبہ تو صورتحال یہ ہوتی ہے کہ دہلی کے باہر سے آیا ہوا مریض اسٹیشن سے پیدل چل کر سرکاری ہسپتال پہنچتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے گاؤں میں کم آمدنی میں بھی خوشی خوشی گزارا کرنے والے شخص کو ریل کے کرائے کے لیے بھی کسی سے قرض لینا پڑتا ہے۔ ایسی صورتحال میں دوسرے شہر آکر علاج کروانا اس کے لیے ایک بھیانک خواب سے بھی بدتر ہوتا ہے۔
معاملہ صرف جان لیوا بیماریوں یا غریب طبقے پر جا کر ہی نہیں رک جاتا ہے۔ ایمرجنسی کی حالت میں ایک کم یا درمیانے آمدنی کے شخص کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ وہ کہاں جائے؟
عبد الرحیم، اتر پردیش کے سنبھل ضلع کے رہنے والے ہیں۔ مہینے میں چار، ساڑھے چار ہزار روپے كمانےوالے عبد الرحیم کے گھر عید کے دن پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اچانک ان کی بہن کے شوہر فرہاد حسین کو سینے میں درد شروع ہو گیا۔ پیسوں کا بندوبست نہیں ہونے کی وجہ سے فرحاد کو تین دن تک گھر میں ہی رکھا گیا۔ تیسرے دن، عبدالرحیم، اپنے بہنوئی کو لے کر ڈسپنسری بھاگے جہاں سے انہیں فوری طور مرادآباد لے جانے کے لیے کہا گیا۔
مراد آباد کے ایک نجی ہسپتال میں آٹھ دس دن گزارنے اور پچیس سے تیس ہزار روپے خرچ کرنے کے بعد بھی جب فرہاد کو آرام نہیں ملا تو انہیں دہلی کے ایمس میں داخل کرنے کا مشورہ دے دیا گیا۔
عبدالرحیم نے راتوں رات بس پکڑی اور دہلی چل دیے۔ لیکن ایمس پہنچنے سے پہلے ہی فرہاد کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔ اس صورتحال میں عبدالرحیم نے ایک قریبی ہسپتال میں جانا مناسب سمجھا، لیکن ہسپتال میں داخل کرلینے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ یہ ہسپتال ان کی استطاعت سے باہر ہے۔
اگرچہ اپنی روداد بیان کرتے ہوئے عبدالرحیم روہانسے ہوجاتے ہیں کہ کس طرح ہسپتال کے ڈاکٹروں نے انہیں بھرپور تعاون فراہم کیا اور پیسوں کی کمی کے باوجود علاج کو ادھورا نہیں چھوڑا گیا۔
اب کسی غریب مریض کا علاج ادھورا چھوڑا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی وجہ 2011 ء میں سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہونے والا وہ حکم ہے، جس کے تحت دہلی کے جن نجی ہسپتالوں کو حکومت کی طرف سے رعایتی شرح پر زمین دی گئی ہے، انہیں اپنے اوپی ڈی کی دس اور اے پی ڈی کی پچیس فیصد گنجائش کو غریبوں کے لیے مختص رکھنا ضروری ہے، اور اس حکم کے تحت ان کا مکمل علاج مفت میں کرنا ہوگا۔
حالانکہ اسی سال اپریل میں دہلی ہائی کورٹ کی طرف سے قائم ایک کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ اس حکم کے باوجود کئی نجی ہسپتالوں میں چالیس فیصد بیڈ اب بھی خالی پڑے ہیں۔
عبدالرحیم خوش نصیب تھے کہ دہلی آگئے، کیونکہ اگر دہلی سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو کئی ریاستوں میں تو ایسے خاندانوں کی خبر لینے والا ہی کوئی نہیں ہے۔
اسی سال معروف ہندوستانی ماہرِ اقتصادیات امرتا سین نے ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ شہریوں کو صحت خدمات فراہم کرنے کا کام یورپی ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد ہی شروع کر دیا تھا۔ جاپان، چین اور کئی ایشیائی ملک بھی اس میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ عالمی سطح پر ایک اہم مقام ركھنےوالے ہندوستان کو اب بھی اس موضوع پر اتنا سوچنا اور غور کرنا پڑ رہا ہے۔