بجٹ 16-2015: منفی پہلو تفصیلات میں قید
اسلام آباد: اس کا آغاز بلند و بانگ دعووں کے ساتھ ہوا اور اختتام دعا پر۔ وزیر خزانہ نے بحٹ تقریر کا آغاز وقت پر کیا اور ابتدا ہی میں خود کی تعریفیں شروع کردی۔ 'دو سالوں میں جتنی معاشی ترقی ہم نے کی ہے اتنی (پاکستان میں) کسی جمہوری حکومت کی تاریخ میں نہیں ہوئی۔'
انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ملک کو پہلے بجٹ میں نادہندہ ہونے سے بچایا۔ دوسرے میں مجموعی معاشی صورت حال کو بہتر بنایا جبکہ تیسرے بجٹ میں ان کی حکومت ملک کو تیزی سے ترقی کی جانب راغب کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: مالی سال 16-2015 کیلئے 43 کھرب روپے کا بجٹ پیش
پارلیمنٹ میں سکون تھا۔ کوئی چیخ و پکار نہیں تھی اور حزب اختلاف کی اکثر نشستیں خالی تھیں۔ سب نے بجٹ تقریر بغور سنی اور وزیر خزانہ کے ساتھ پڑھتے رہے۔ اس بجٹ میں پی پی پی حکومت کے 2012 کے آخری بجٹ یا مشرف حکومت کے 2007 کے بجٹ جیسا کچھ نہیں تھا جنہیں شدید احتجاج کا سامنا تھا۔ مشرف حکومت کا بجٹ 12 مئی کے سانحے کے بعد پیش کیا گیا تھا۔
اس طویل دورانیے کی تقریر میں اسحاق ڈار نے متعدد اسکیموں، مراعات اور ریلیف کی فہرستیں بیان کی۔ نیشنل ڈیویلپمنٹ پروگرام کے 1.5کھرب کے ذریعے گروتھ 5.5 فیصد رہے گی جس کا مطلب گروتھ ریٹ 1.2 فیصد رہے گا جو کہ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کافی زیادہ ہے کہ رواں مالی سال یہ ریٹ 0.24 فیصد تھا۔
بجٹ میں وفاقی حکومت کی جانب سے پی ایس ڈی پی کے تحت 700 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے رکھے گئے ہیں جبکہ صوبائی ترقیاتی منصوبوں پر 813 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ بجٹ کا مجموعی حجم 4.584 کھرب روپے ہے جس میں سے 1.849 کھرب این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے۔ بجٹ خسارہ 1.328کھرب مختص کیا گیا ۔
نئے شعبوں پر ٹیکس کی وجہ سے 253 ارب روپے میسر ہوں گے جبکہ سبسڈیز کم کرنے سے اضافی 105 ارب روپے حاصل ہوں گے جن کے ذریعے خسارے کے ہدف کو حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
تقریر کے بڑے حصے میں وزیراعظم کی نوجوانوں کے لیے اسکیمز کا ذکر کیا گیا۔ ان پروگرامز میں انٹرنشپ اسکیمز، اسکل ڈیویلپمنٹ اور نوجوانوں کے لیے بلا سود قرضے شامل تھے۔
ان تمام پروگرامز کا اعلان طویل تھا تاہم ان کی مجموعی مالیت صرف دو ارب روپے ہی تھی۔
سولر پینلز کے حوالے سے بھی تقریر کے دوران بات کی گئی اور اس سلسلے میں کچھ مراعات بھی دی گئیں جن میں کسانوں کے لیے سولر پینل پر چلنے والے ٹیوب ویلز کے لیے بلا سود قرضے، سولر پینل کی درآمد پر سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ شامل تھیں تاہم ان کا اعلان گزشتہ سال کیا گیا تھا اور اس اعلان سے مقامی سولر پینلز کے مینوفیکچررز سراپائے احتجاج ہوں گے۔
حلال گوشت بنانے والوں کو انکم ٹیکس سے چار سال کے لیے مستثنیٰ قرار دیا گیا۔
پولٹری اور تازہ دودھ کی صنعت کو ودہولڈنگ ٹیکسز سے مستثنیٰ قرار دیا گیا جبکہ ذراعت کے لیے استعمال ہونے والی مشینری پر سیلز ٹیکس کو بھی 17 سے 7 فیصد کرنے کا اعلان کیا گیا۔
بجٹ تقریر کا ایک اور بڑے حصے کا محور خیبرپختونخوا صوبے کے لیے مراعات تھیں۔ ان مراعات میں افغانستان سے تجارت ڈالر کے بجائے روپے میں کرنے پر ودہولڈنگ ٹیکسز کی چھوٹ بھی شامل تھی۔
تقریر کا اتنا بڑا حصہ صوبے پر مختص کرنے کے پیچھے مقصد سیاسی نظر آتا ہے کیوں کہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جو حکمران جماعت کی سب سے مضبوط مخالف بن کر ابھری ہے۔
اس کے علاوہ زیادہ تر ریلیف کا مرکز حکومت کے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کے گرد تھا جنہیں 7.5 فیصد بڑھا دیا گیا ہے جبکہ میڈیکل الاؤنس میں بھی 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
پوری تقریر کے دوران پانی سے متعلق منصوبوں پر صرف ڈیمز پرہی بات کی گئی۔
اس کے علاوہ خودکش حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کے لیے بھی کچھ مراعات رکھی گئیں۔ اس کے علاوہ دیگر دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والوں کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اسحاق ڈار کے مطابق 'پانی، بجلی، ہائی ویز اور ریلوے میں سرمایہ کاری سے گروتھ اور زورگار پر مثبت اثر پڑے گا کیوں کہ اس سے نئے مواقع پیدا ہوں گے اور کاروبار کرنے کی قیمت کم ہوگی۔'
ٹیکسٹائل پالیسی کا بھی ذکر کیا گیا جس میں مجموعی طور پر 64.15 ارب روپے کی مراعات دی گئیں۔
اس کے علاوہ ایف بی آر سے خاص مراعات دینے کا اختیار واپس لے لیا گیا ہے، اب اس طرح کی تمام مراعات پارلیمنٹ کی منظوری سے دی جائیں گی۔
اس بجٹ کو انتہائی سوچ سمجھ کر ترتیب دیا گیا ہے اور حکومت نے اسے جس انداز میں پیش کیا وہ متاثر کن ہے تاہم اس کے منفی پہلو تفصیلات میں چھپے ہیں۔ بجٹ کے حکومتی اہداف کو پورا کرنے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے۔