سانحہ 8 اکتوبر: ہم نے کچھ سیکھا؟
2005
یہ 10 اکتوبر 2005 کا دن تھا جب میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی ریلیف ٹیم کے ساتھ مانسہرہ پہنچا۔ قیامت خیز زلزلے کو اب دو دن گزر چکے تھے۔
ہمارا پہلا پڑاؤ مانسہرہ کے شاہنواز چوک پر کڈز بلڈ ڈزیز آرگنائزیشن (کے بی ڈی او) کا ہسپتال تھا۔ ہماری ٹیم میں انیستھیسسٹ، گائیناکولاجسٹ، آرتھوپیڈک سرجنز، جنرل سرجنز، فزیشنز، اور رضاکار شامل تھے۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے پر ہم نے ترقی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کو ہمراہ لیا اور مانسہرہ کے لیے ویگن میں سوار ہوئے۔
یہ ایک طویل سفر تھا۔ ہم نے سنا تھا کہ اسلام آباد میں ایک بڑی عمارت گر چکی ہے مگر ایبٹ آباد اور مانسہرہ کے درمیان ہم نے کئی ٹوٹ چکی عمارتیں دیکھیں جن میں سے زیادہ تر مکمل تباہ ہو چکی تھیں۔
اس وقت بہت ہی کم ٹریفک تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ زلزلے سے حقیقت میں کتنی تباہی ہوئی ہے۔ ہم نے ہر چہرہ پریشان دیکھا، اور جب کبھی بھی آفٹرشاکس آتے، تو لوگوں میں بھگدڑ سی مچ جاتی۔ اس قدر شدید زلزلے کے بعد ایسا ہونا معمول کی بات ہے۔
مانسہرہ پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ مظفرآباد تک کی سڑک بند تھی اور پاک فوج مرکزی سڑک کھولنے کے لیے کام کر رہی تھی۔
ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بالاکوٹ مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ ہم ایبٹ آباد کے چند لوگوں سے ملے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ میڈیکل کالج ہسپتال زخمیوں سے بھر چکا تھا اور مریض اب اس کی استعداد سے زیادہ ہو چکے تھے۔
کفن کی تلاش
مانسہرہ میں ہم نے بڑی تعداد میں لوگوں کو پناہ کی تلاش میں سرگرداں دیکھا، سب ہی کے پاس اس قیامت خیز تباہی سے متعلق الگ الگ داستانیں تھیں۔
ایبٹ آباد ہسپتال میں کام جاری تھا، مگر ہسپتال کی عمارت میں اتنی دراڑیں پڑ چکی تھیں کہ خدشہ تھا کہ ہسپتال بھی کسی بھی وقت گر جائے گا۔ ہم نے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کو آنکھوں میں خوف لیے اس قدر شدید سانحے سے نمٹنے کے لیے ضروری طبی سامان کے بغیر اپنی سی کوششیں کرتے ہوئے دیکھا۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی نے ہمیں بتایا کہ جب عبدالستار ایدھی نے زلزلے کے بارے میں سنا تو انہوں نے پنجاب اور سرحد (اب خیبر پختونخواہ) میں موجود تمام ایدھی ایمبولینسوں کو حد درجہ ممکن آٹے اور کفن کے ساتھ زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں بھیجنے کی ہدایت کی۔
یہ ایک بہت دانشمندانہ فیصلہ تھا؛ صرف دو دن کے اندر ہی ہم نے دیکھا کہ لوگ ملبے سے نکالی گئی لاشوں کے لیے کفن کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔ بالاکوٹ تو مکمل طور پر زمین بوس ہوگیا تھا لہٰذا تمام لاشوں کو نکالنے میں کئی دن لگ گئے، جبکہ کئی جگہوں پر مسخ شدہ لاشوں کو دفنانے کے لیے اجتماعی قبریں کھودی گئیں۔
ایدھی فاؤنڈیشن نے آٹا، دالیں، پکانے کا تیل اور پینے کا صاف پانی فراہم کرنا شروع کیا۔ بہت کم مدت میں ہی ایدھی کے رضاکار متاثرہ علاقوں کے بڑے حصے میں اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ چھوٹی ہوا بھری کشتیاں بھی لائے تھے جن کی مدد سے زخمیوں اور کھانے پینے کی اشیاء کو دریاؤں کے پار پہنچانے میں بہت آسانی ہوئی۔
ملک بھر سے رضاکار متاثرین کی مدد کے لیے آنا شروع ہوگئے۔ کینیڈا، امریکا، اور برطانیہ سے پاکستانی ڈاکٹر ضروری سامان کے ساتھ پہنچے اور فیلڈ ہسپتال قائم کر کے زخمیوں کے علاج اور آپریشن شروع کر دیے۔
مڈلینڈ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن برطانیہ کی جانب سے بالاکوٹ میں ایک بہت بڑا ہسپتال قائم کیا گیا، جبکہ کیوبا، ترکی اور متحدہ عرب امارات سے بھی بڑی تعداد میں رضاکاروں نے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں شروع کیں۔
ملکی اور غیر ملکی غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے مالی امداد آنی شروع ہوگئی اور دنیا بھر سے لوگوں نے حکومتِ پاکستان کو اپنے عطیات بھیجے۔
مگر ہم یہ سن کر بھونچکے رہ گئے کہ جب زلزلے کے دوسرے دن مظفرآباد کی سڑک کھولی گئی تو لوگوں کے ایک منظم گروہ نے مظفرآباد اور اس کے آس پاس کے علاقوں سے گاڑیاں چرائیں اور زمین بوس ہو چکے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر لے گئے۔
یہ بھی اطلاعات تھیں کہ زلزلے سے متاثرہ کچھ نوجوان لڑکیوں کو اغواء کیا گیا تھا۔ وہ لڑکیاں جنہوں نے اس سانحے میں اپنے والدین کو کھو دیا تھا، انہیں اغواء کر کے جسم فروشی کے لیے ملک کے دیگر حصوں میں اسمگل کر دیا گیا تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ٹرکوں اور کنٹینروں سے طبی آلات، دوائیں، کمبل اور خیمے چرائے یا چھینے گئے، اور بعد میں انہیں ملک کے دیگر حصوں میں فروخت کے لیے اسمگل کر دیا گیا۔
بہت جلد حکومت نے فوراً بچوں، خصوصاً لڑکیوں کے متاثرہ علاقوں سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی۔ متاثرہ علاقوں سے باہر جانے والے تمام ٹرکوں اور گاڑیوں کی تلاشی کے لیے چوکیاں قائم کی گئیں۔ ہم نے زلزلہ متاثرین کو امداد کی تقسیم میں بھی بڑے پیمانے پر بدعنوانی کا مظاہرہ دیکھا۔
اس بے نظیر تباہی کے ساتھ ہی ہر محکمے میں موجود بدعنوان لوگوں کی چاندی ہوگئی۔ فوج نے بااثر لوگوں کے قبضے سے کئی کنٹینیر برآمد کیے جن میں زلزلہ متاثرین کے لیے سامان موجود تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر نہایت افسوس ہوا۔
اس تباہی کے اثرات ہر جگہ موجود تھے۔ مظفرآباد کے نزدیک ایک چھوٹا سا گاؤں گڑھی دوپٹہ بھی تباہ ہو چکا تھا اور وہاں لوگ خیموں میں مقیم تھے۔ بالاکوٹ جو کبھی زندگی سے بھرپور شہر تھا، مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا۔ ہم نے کئی جگہوں پر لینڈ سلائیڈز دیکھیں۔ پہاڑیوں کے گرنے سے بننے والی جھیلوں میں پانی تیزی سے جمع ہو رہا تھا جسے پاک فوج کلیئر کر رہی تھی۔ ہم نے متاثرین میں بھی ایک جذبہ دیکھا، اور ان لوگوں میں بھی جو پاکستان بھر سے اس قومی سانحے کے شکار لوگوں کی مدد کرنے آئے تھے۔
میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے امدادی دستے کے ساتھ 6 ماہ کے لیے اس علاقے میں ٹھہرا، اور اس دوران میں نے اس علاقے اور اس کے لوگوں کے بارے میں بہت کچھ جانا۔
پہلی دفعہ میں نے جانا کہ مظفرآباد سے اسلام آباد تک فراہمی و نکاسیء آب کا کوئی معقول نظام موجود نہیں تھا۔ ہوٹلوں، ریسٹ ہاؤسز، اور گھروں سے نکلنے والا سیوریج کا پانی چھوٹی ندیوں اور دریاؤں میں جا ملتا ہے اور حتمی طور پر دریائے سندھ میں گرتا ہے۔
یہ جان کر بہت افسوس ہوا کہ وہاں کئی لوگوں نے زندگی میں پہلی بار لیڈی ڈاکٹر کو دیکھا تھا۔ جناح ہسپتال کراچی کی ایک ڈاکٹر (جو اب پروفیسر بن چکی ہیں) نے ہمیں بتایا کہ جب وہ فوجی ہیلی کاپٹر میں ایک چھوٹے سے گاؤں پہنچیں، تو وہاں کے لوگوں کے لیے یہ بات ناقابلِ یقین تھی کہ کوئی عورت بھی ڈاکٹر ہو سکتی ہے۔ کئی عورتیں صرف ان سے ہاتھ ملانے اور ان سے اظہارِ تشکر کے لیے ان کے پاس آتی تھیں۔
میں نے اس علاقے میں بنیادی صحت کے نظام کی تباہ حالی بھی دیکھی اور مجھے احساس ہوا کہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کا سیکریٹری جنرل ہونے کے باوجود میں پاکستان کے دور دراز علاقوں کے لوگوں کی حالت اور صحت کے بارے میں لاعلم تھا۔
مجھے خود پر شرم آنے لگی اور مختلف حکومتوں اور اپنے ہم پیشہ لوگوں کی ترجیحات پر حیرت ہونے لگی۔
واپس آنے سے قبل اسلام آباد میں رضاکاروں کی جس آخری میٹنگ میں میں نے شرکت کی تھی، اس میں نے حکومت پر زور دیا تھا کہ حکومت کو دنیا بھر سے جو فنڈز ملے ہیں، انہیں وہ سیوریج کا نظام بہتر بنانے اور لوگوں کو صاف پانی فراہم کرنے کے لیے استعمال کرے۔
ہم نے تجویز دی کہ راولپنڈی سے لے کر حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہزارہ، مظفر آباد، باغ، بالاکوٹ اور بشام تک تمام شہروں اور قصبوں کی تعمیرِ نو کے لیے سخت قوانین اور ضابطے بنائے جائیں اور ان پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے۔
ہم نے ماحول دوست قوانین کے متعارف کروانے اور ان پر سختی سے عملدرآمد کروانے کی تجویز بھی دی۔ ہمارے خیال میں لوگوں کو ماحول، دریاؤں، پہاڑوں اور علاقے کی قدرتی خوبصورتی کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ایک بہت بڑی مہم کی ضرورت تھی۔ ہم نے حکومت کو یہ بھی تجویز دی کہ بچوں کی تعلیم پر پیسے لگائے جائیں اور بنیادی تعلیم کا حد درجہ ممکن بہترین نظام قائم کیا جائے۔
2015
دو ماہ پہلے میں ایک بار پھر وہاں گیا، اور راولپنڈی سے مظفر آباد اور دیگر متاثرہ علاقوں تک اسی سڑک پر سفر کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ سڑک کی حالت ویسی ہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر دھچکا لگا کہ ہر شہر اور قصبے میں قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اور لوگوں کے تحفظ کو نظر میں رکھے بغیر نئی کثیر المنزلہ عمارات تعمیر کی جا رہی تھیں۔
یہ جان کر بھی افسوس ہوا کہ پچھلے دس سالوں میں ہم فراہمی و نکاسیء آب کا ایک مناسب نظام بھی نہیں بنا سکے ہیں۔ لگتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ یہ پہاڑی علاقہ کس قدر خطرناک ہے۔
جس جگہ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب نے اپنا فیلڈ ہسپتال قائم کیا تھا، وہاں پر میں نے ایک سات منزلہ عمارت دیکھی۔ مجھ جیسا ایک ڈاکٹر بھی یہ بتا سکتا ہے کہ ایک درمیانے درجے کے زلزلے میں یہ عمارت فوراً گر جائے گی۔ یہ بات واضح تھی کہ تعمیرات سے متعلق قواعد و ضوابط کی کسی کو بھی پرواہ نہیں تھی۔
میں نے ہزارہ اور بشام میں چند بنیادی صحت مراکز اور دیہی صحت مراکز کا بھی دورہ کیا۔ یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ان صحت مراکز میں کوئی بھی تربیت یافتہ طبی عملہ جیسے کہ ڈاکٹر، نرسیں اور دائیاں موجود نہیں تھیں۔ مریضوں کے لیے دوائیں موجود نہیں تھیں اور نہ ہی کسی ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے کوئی سہولیات دستیاب تھیں۔ ہم وہاں حاملہ خواتین اور بچوں کی صحت کے لیے کوئی منظم نظام قائم کرنے میں ناکام رہے۔
اسکولوں کی حالت بھی چنداں مختلف نہیں؛ طلباء بے شمار ہیں مگر اساتذہ انگلیوں پر گننے جتنے۔ بنیادی سہولیات جیسے کہ فرنیچر، لیبارٹریاں، لائبریری، ٹوائلٹس، پانی، اور صاف ماحول کا نام و نشان نہیں تھا۔
مجھے اس بات پر حیرت تھی کہ حکومت آخر کیوں بارشوں یا زلزلوں سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہے۔ بین الاقوامی برادری اور عوام کی جانب سے بے پناہ عطیات کے باوجود حکومت نے علاقے میں جانوروں اور انسانوں کے لیے ماحولیات کے تحفظ کے لیے کچھ نہیں کیا۔
حکومت اس علاقے میں تعلیم و صحت کے لیے کچھ کیوں نہیں کر رہی؟
اب میں اس بات کو سمجھ گیا ہوں کہ ہم کیوں اور کیسے بحیثیتِ قوم اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی مقاصد کے حصول میں ناکام ہو چکے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھ گیا ہوں کہ ہم پولیو کے خاتمے میں کیوں ناکام ہیں۔ یہ جان کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومت اور لوگوں نے اکتوبر 2005 کے زلزلے سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔
حکومت اور لوگ صرف ایک اور قدرتی آفت کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ دوسرے ممالک اور لوگوں سے امداد آئے تاکہ عوام اور ماحولیات کی قیمت پر پیسے بنائے جائیں۔ پچھلے دس قیمتی سالوں کو ہم نے کس طرح ضائع کیا ہے۔
جس نظام میں ہم جی رہے ہیں، وہاں صحیح اقدامات اٹھانے کے لیے حکومت پر زور دینا ناممکن لگتا ہے۔ مگر پھر بھی ایک امید ہے کہ شاید حکومت 2005 کے زلزلے کے دس سال مکمل ہونے پر ایمرجنسی نافذ کرے تاکہ وہاں کے غریب بدقسمت لوگوں کی زندگی بہتر بنائی جا سکے۔
حکومت کو اس علاقے میں عمارتوں کی تعمیرات کے لیے سخت قواعد و ضوابط بنا کر ان پر سختی سے عملدرآمد کروانا چاہیے۔ یہی وقت ہے کہ تمام فواروں، دریاؤں اور جھیلوں کو ہر طرح کی آلودگی سے محفوظ کیا جائے اور سیوریج کے پانی کو دریاؤں میں چھوڑنے سے قبل صاف کیا جائے۔
اس علاقے کے درختوں، پہاڑوں، جنگلی حیات اور قدرتی خوبصورتی کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔
خیبر پختونخواہ اور کشمیر کی حکومتوں کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ اگلے پانچ سالوں میں وہ ہر گاؤں، قصبے اور شہر کے لیے فراہمی و نکاسیء آب کا نظام بنائیں۔ انہیں بنیادی صحت مراکز بھی منظم کرنے چاہیئں تاکہ صحت کا نظام بہتر ہو سکے، جبکہ ہر بچے کا اسکول جانا یقینی بنانا چاہیے۔
زلزلے کے دس سالوں بعد ہمیں یہ احساس ضرور ہونا چاہیے کہ بھلے ہی ہم نے بہت سا وقت گنوا دیا ہے، مگر اب بھی درست سمت میں درست قدم اٹھانے کا موقع موجود ہے۔
یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 4 اکتوبر 2015 کو شائع ہوا.
تبصرے (3) بند ہیں