ٹھینگا
گزشتہ دنوں ایک دم سے اعلان سامنے آیا کہ دوحہ، قطر میں افغان طالبان نے اپنے دفتر کا افتتاح کر دیا ہے.
اسکے بعد میڈیا کی کوریج میں افغان طالبان کی پریس کانفرنس اور دیگر سرگرمیوں کے بارے میں رپورٹنگ شروع ہوگئی اگرچہ یہ اعلان تو ایک دم سے سامنے آیا لیکن پردے کے پیچھے ہونے والے مصالحتی عمل کا پھل اس سیاسی دفتر کی صورت میں سامنے آیا ہے، اس سیاسی دفتر کے افتتاح کے موقعہ پر طالبان نے اپنا ترانہ پڑھا اور اپنے دور کا سرکاری جھنڈا بھی لہرایا اور جس نام کی تختی کا افتتاح کیا گیا اس پر 'سیاسی دفتر اسلامی امارت افغانستان' لکھا ہوا ہے. اس نام اور افتتاحی تقریب کی اپنی اہمیت ہے جس پر آگے چل کر بات ہوگی.
پاکستان میں جاری دہشت گردی کا تانا بانا افغانستان کے حالات سے جوڑا جاتا ہے اور پاکستان کی افغانستان کے مستقبل میں کردار ادا کرنے اور وہاں کے نئے سیاسی انتظام میں اپنی مرضی کی خواہش کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے.
اسٹریٹجک گہرائی (تزویراتی گہرائی) کا نظریہ بھی ابھی کوئی اتنا پرانا نہیں ہوا اور حقانی نیٹ ورک کی ایسی حفاظت جیسے بوڑھی مرغی اپنے آخری انڈے کی کرتی ہے سے یہ یقین اور پختہ ہو جاتا ہے کہ یہ نظریہ ابھی تک اپنی موت نہیں مرا بلکہ کچھ دلوں میں چٹکیاں لے رہا ہے.
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان کی سرکردہ قیادت پاکستان میں پناہ لئے ہوئی ہے جن میں سے اکثر و بیشتر کو پکڑا بھی گیا ہے اور آج کل وہ سرکاری خرچ پر 'مہمان' ہیں.
خیر اس دفتر کے افتتاح اور اسکے فوراً بعد امریکا کی جانب سے سامنے والے اس اعلان نے کہ امریکا طالبان سے براہ راست مذاکرات کرے گا نے کابل اور اسلام آباد میں 'دوڑیں' لگ گئیں. اسلام آباد میں دفتر خارجہ کو وضاحتی بیانات جاری کرنے پڑے کہ پاکستان اس دفتر کے کھلنے کا خیر مقدم کرتا ہے وغیرہ وغیرہ اور جو بات کہنے کے لئے تمہید باندھی گئی تھی وہ دوسرے پیراگراف میں کہی گئی ہے یعنی کہ یہ سب کچھ پاکستان کے مثبت اور تعمیری کردار کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے.
ادھر کرزئی حکومت بھی چراغ پا ہے کہ انھیں مکھن میں سے بال کی طرح نکل کر امریکا طالبان سے براہ راست مزاکرات کر رہا ہے اور طالبان سے مزاکرات کے لئے 2010 میں قائم کی گئی 'افغان ہائی پیس کونسل' کو کوئی 'لفٹ' نہیں کروائی گئی.
ابھی تک تو فی الحال کرزئی حکومت نے امریکا-طالبان مذاکرات کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے اور یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ افغان سرکردگی میں ہونے والے مزاکرات میں ہی حصّہ لیا جائے گا.
دوسری طرف ایک مسئلہ اس دفتر کی افتتاحی تقریب کے حوالے سے بھی سامنے آیا ہے کرزئی حکومت برہم ہے کہ اس دفتر کا نام اسلامی امارت افغانستان کے نام پر رکھا گیا ہے اور ادھر جھنڈا بھی طالبان نے اپنا لہرایا ہے اور امریکا ان سے مزاکرات کرنے چلا ہے!
جناب کرزئی صاحب اس پر اتنے برہم ہوۓ کہ انہوں نے اپنی حکومت اور امریکا کے درمیان افغانستان کی 2014 میں امریکا کی روانگی کے بعد کی تفصیلات کے خد وخال واضح کرنے کے لئے طے شدہ بات چیت کو بھی التوا میں ڈال دیا ہے ساتھ ہی ساتھ انہوں نے پاکستان کو 'رگڑ' ڈالا کہ طالبان کے دفتر کو کھلوانے میں 'غیر ملکی' ہاتھ ہے.
جب بھی کرزئی صاحب غیر ملکی ہاتھ کا ذکر کرتے ہیں تو اس سے انکی مراد وہ ملک ہوتا ہے جہاں وہ افغانستان پر سوویت قبضہ کے دوران روٹیاں توڑتے رہے تھے یعنی پاکستان.
فی الحال امریکا نے جو جمعرات سے مذاکراتی عمل شروع کرنا تھا اسے ایک طرف رکھ دیا گیا ہے تاکہ ان مسائل سے نمٹ لیا جائے پھر ہی کوئی بات چیت شروع ہو. رائٹرز کے مطابق طالبان کے دفتر سے تختی بھی اتری ہوئی ہے اور جھنڈا بھی غائب ہے اسکا مطلب ہے کہ کرزئی حکمت کو رام کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں البتہ پاکستان کو ابھی کوئی لفٹ نہیں کروائی جا رہی اور امریکا نے پاکستان کی جانب سے اپنے منہ میاں مٹھو ہونے والے بیان کو سمجھئے کہ ردی کی ٹوکری میں ہی ڈال دیا گیا ہے.
یہ صورتحال پاکستان کے لئے خاصی تشویشناک ہے، کیونکہ جس جنت کے حصول کے لئے ہم 'نیکیاں' کرتے رہے اب پتا لگ رہا ہے کہ اسکا ٹکٹ نہیں ملے گا!!
افغانستان جسکے گورکھ دھندے میں اپنے آپ کو بلی چڑھا کر ہم نے اپنے ملک کو آگ و خون میں دھکیل دیا اب وقت ہے کہ اس سے اپنا پیچھا چھڑوا لیا جائے اور اپنے ملک میں لگی آگ پر توجہ دیں تاکہ پاکستانیوں کی جانوں کا جو ضیاع ہو رہا ہے اسے روکا جائے.
'جہاں تک ان مزاکرات میں پاکستان کے کردار کا تعین کروانا ہے اس سلسلے میں ہماری نئی امور خارجہ کی ٹیم اور پرانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا یہ امتحان ہو گا کہ وہ اس مشکل صورتحال میں سے ملک کے لئے کتنے فوائد کشید کر سکتے ہیں.
امریکا اور کرزئی حکومت تو اس مسلے میں سے طالبان سے مزاکرات کر کے اپنا اپنا دامن بچا جائیں گے لیکن کہیں پاکستان کا دامن انگاروں سے نہ بھر جائے. امریکا جو طالبان سے مزاکرات کرنے جا رہا ہے اس کے ایجنڈا میں سب سے پہلا نمبر القاعدہ سے تعلقات توڑنے کا اعلان ہے اگر ایسا ہو جاتا ہے تو ایک یتیم القاعدہ پاکستان کے لئے خونخوار جانور کی مانند ہو گی جو اپنا ٹھکانہ اجڑنے کے بعد کسی دوسرے کے مسکن پر قبضہ کر لیتا ہے.
پاکستان کا ان مزاکرات میں شمولیت افغانستان میں اپنے کردار کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کی جانب بڑھتے ہوئے اس عفریت کی روک تھام کے لئے ہونا چاہیے لیکن خیر ابھی تو آغاز ہے آگے پکچر باقی ہے، ابھی تو فی الحال امریکا نے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ٹھینگا دکھایا ہوا ہے!
علی منیر میڈیا سے منسلک قلم کے ایک مزدور ہیں اور خود کو لکھاری کہلانے سے کتراتے ہیں۔