'لاکھوں لڑکیاں تعلیم کے حق سے محروم'
اسلام آباد: یونیسکو انسٹیٹیوٹ آف اسٹیٹسٹکس (یو آئی ایس) کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو 6 سے 11 سال کی عمر کی تقریباً 1 کروڑ 60 لاکھ لڑکیوں کو پرائمری اسکولوں میں داخلے کا موقع نہیں ملے گا جبکہ لڑکوں میں یہ تعداد 80 لاکھ ہے۔
8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے شائع کی گئی اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ 20 سالوں میں بہتری آنے کے باوجود آج بھی لڑکیوں کو ہی سب سے پہلے تعلیم کے حق سے محروم کیا جاتا ہے۔
عرب ریاستوں سمیت افریقا، جنوبی اور مغربی ایشیا میں صنفی تفریق سب سے زیادہ موجود ہے۔ جنوبی اور مغربی ایشیا میں 80 فیصد لڑکیاں 16 فیصد لڑکوں کے مقابلے میں آج بھی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتیں۔ یہ فرق 10 لاکھ لڑکوں کے مقابلے میں 40 لاکھ لڑکیوں کو متاثر کرتا ہے۔
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، وہ بچے جن کی عمر پرائمری اسکول جانے کی ہے تاہم انہیں داخلہ نہیں ملتا ان کی تعداد میں بھی 5 کروڑ 90 لاکھ تک اضافہ ہوا ہے جس میں 3 کروڑ 10 لاکھ لڑکیاں ہیں۔
اکیسویں صدی کے اوائل کے مقابلے میں آج اسکول سے باہر رہنے والے بچوں میں صنفی تفریق کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے، یو آئی ایس کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق لڑکیوں کو اسکول جانے سے روکنے کے حوالے سے رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے متعدد اقدامات اور مہم کے باوجود حالیہ سالوں میں بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں تقریباً 29 لاکھ نوعمر یا سیکنڈری اسکول جانے والی 53 فیصد لڑکیوں کو اسکول میں داخل نہیں کیا گیا جبکہ 26 لاکھ یعنی 43 فیصد لڑکے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
خواتین کے عالمی دن کے لیے اس سال کا موضوع ’Planet 50-50 by 2030: step it up for gender equality‘ رکھا گیا۔
یونیسکو کے جنرل ڈائریکٹر ایرینا بوکووا کا کہنا تھا ’جب تک ہم لڑکیوں اور عورتوں کی آنے والی نسلوں کو متاثر کرنے والی تفریق اور غربت کو ختم نہیں کر پائیں گے ہم پائیدار ترقی کے اہداف کو حاصل نہیں کر پائیں گے‘۔
ان کا کہنا تھا ’ہمیں گراس روٹ سطح سے عالمی رہنماؤں کو لے کر ہر سطح پر کام کرنا ہوگا جس سے ہم ہر پالیسی میں برابری کو شامل کریں تاکہ ہر لڑکی، کسی بھی قسم کے حالات میں اسکول جائے اور ایک بااختیار شہری بنے‘۔
پائیدار ترقی کے اہداف-4 کو اپنانے کے ساتھ حکومتوں کا وعدہ ہے کہ وہ صنفی فرق کو ختم کریں گی، ساتھ ہی 2030 تک ہر بچے کے اسکول جاکر تعلیم حاصل کرنے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی۔ تاہم آٹھ میں سے کوئی ایک بچہ 6 سے 15 سال کی عمر کے درمیان اسکول جانے سے محروم ہوتا ہے اور ان میں سب سے زیادہ تعداد لڑکیوں کی ہوتی ہے۔ حالیہ اعدادوشمار کے مطابق 6 کروڑ 30 لاکھ سے زائد لڑکیاں اسکول جانے سے محروم ہیں اور اس تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔
صنفی تفریق کو کم کرنے کی اب تک کی سب سے بڑی پیش رفت جنوبی اور مغربی ایشیا میں کی گئی ہے جہاں ایک لڑکی تعلیم شروع کرنے کے بعد 11 سال تک اسے جاری رکھ سکتی ہے جبکہ 1990 میں وہ صرف 6 سال تک تعلیم جاری رکھ سکتی تھی۔
رپورٹ کے مطابق دنیا میں 28 فیصد محققین خواتین ہیں۔ لاطینی امریکہ اور کیریبین ریاستوں میں سب سے زیادہ 44 فیصد خواتین محققین موجود ہیں جبکہ ایشیا میں یہ تعداد کم ہوکر 23 فیصد خواتین محققین پر آجاتی ہے۔
2013 میں گریجویٹ ہونے والے طلبہ میں خواتین کی تعداد مردوں سے زائد تھی۔ اس بہتری کے باجود خواتین کو مختلف رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
خواتین کا شعبہ تعلیم، انسانیت اور فنون، سوشل سائنسز، بزنس اور قانون، صحت اور فلاح و بہبود میں مردوں کے مقابلے گریجویشن کا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے۔
اعداد وشمار کے مطابق ہر علاقے میں، سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی کے شعبے میں خواتین محققین کی تعداد کم ہوتی ہے۔ خواتین زیادہ تر تعلیمی اور سرکاری شعبوں میں کام کرتی ہیں جبکہ مرد نجی شعبوں میں کام کرنے کو ترجیح دیتی ہیں جہاں بہتر تنخواہ اور مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔
یہ مضمون 7 مارچ 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں