• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پاناما لیکس: شریف خاندان کا دفاع نہ کرنے پر مریم ناخوش

شائع April 15, 2016 اپ ڈیٹ April 19, 2017

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کی غیر موجودگی میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما پاناما لیکس کے تناظر میں اپوزیشن کو ہینڈل کرنے کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے وزیراعظم کے دفتر میں جمع ہوئے، مریم نواز شریف اس اجلاس کی اہم رکن تھیں.

ایک پریس ریلیز کے مطابق اجلاس کی صدارت وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار نے کی لیکن وزیراعظم ہاؤس کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس کا مرکز دراصل وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز تھیں.

انھوں نے دوران گفتگو مختلف معاملات کے حوالے سے تجاویز دیں اور اپنی رائے کا اظہار کیا.

مذکورہ عہدیدار کے مطابق وزیراعظم کی زیرِ صدارت ہونے والے دیگر اجلاسوں میں شرکت کے برعکس، اس اجلاس میں مریم نواز نے فعال انداز میں بحث میں حصہ لیا.

مزید پڑھیں : شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف

ان کا کہنا تھا کہ مریم نواز کا خیال ہے کہ حکمران جماعت نے پاناما پیپرز لیکس کے معاملے پر وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ کا مناسب طریقے سے دفاع نہیں کیا، انھوں نے اجلاس کے دوران ہر سطح پر 'مضبوط دفاع' کرنے کو کہا.

چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ کسی حاضر سروس جج کی سربراہی میں عدالتی کمیشن قائم کرنے کے اپوزیشن کے مطالبے کو مسترد کرنے کے حوالے سے بھی سب سے پہلے مریم نواز نے بات کی.

مسلم لیگ (ن) کے ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ 'اگر کوئی کمیشن بنا تو اس کی سربراہی سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کریں گے، جس کا اعلان وزیراعظم نواز شریف بھی قوم سے اپنے خطاب میں کرچکے ہیں'.

آزاد مبصرین کی نظر میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ 'میڈیکل چیک اپ' کے لیے والد کی لندن میں موجودگی کے دوران مریم نواز نے سیاسی اور حکومتی معاملات میں سرگرمی سے حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے.

اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی شریک ہوئے، اس دوران فیصلہ کیا گیا کہ پاناما پیپرز کے معاملے پر حکومتی موقف پیش کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں تک پہنچا جائے. جبکہ شریف خاندان پر آف شور کمپنیز قائم کرنے کے لیے منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مجوزہ جوڈیشل کمیشن کے قیام کے حوالے سے ٹرمز آف ریفرنس (ٹی او آر) پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا.

ٹی او آر کے مطابق کمیشن شریف خاندان سمیت ان تمام پاکستانیوں کے خلاف الزامات کی تحقیقات میں مکمل طور پر بااختیار ہوگا، جن کے نام پاناما پیپرز میں شائع ہوئے . اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک سے زائد جج کمیشن کا حصہ ہوں گے، جس میں اسٹیٹ بینک سمیت تمام اداروں کے ارکان شامل ہوں گے.

یہ بھی پڑھیں:پاناما لیکس مسلم لیگ کیلئے پریشان کن نہیں

ڈان سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد اللہ خان نے بتایا کہ اگرچہ مریم نواز میڈیا کے معاملات دیکھتی ہیں، لیکن ماضی میں وہ وزیراعظم کی زیرِ صدارت ہونے والے اس طرح کے اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں بھی شرکت کرچکی ہیں.

ان کا کہنا تھا کہ حکومت جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے تیار تھی اور اس سلسلے میں ٹی او آر پر بھی بحث ہوچکی تھی لیکن اپوزیشن اس معاملے میں تقسیم کا شکارنظر آتی ہے.

مشاہداللہ نے بتایا کہ ہم نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے بعد ہی کمیشن کے قیام کے حوالے سے فیصلہ کریں گے. فی الوقت پی ٹی آئی، چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں ایک کمیشن چاہتی ہے، جبکہ پپیلز پارٹی پاناما لیکس کے معاملے پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنانے کے حق میں ہے.

ان کا مزید کہنا تھا کہ دیکھتے ہیں آن والے دنوں میں صورتحال کیا کروٹ لیٹی ہے.

یہ بھی پڑھیں:وزیراعظم کی لندن روانگی،لاہورایئرپورٹ پر اہم اجلاس

وزیراعظم ہاؤس کے ایک عہدیدار کے مطابق وزیراعظم کی لندن سے واپسی ان کے ڈاکٹروں کے مشورے پر منحصر ہے، کیونکہ وہ واقعی بیمار ہیں.

سرکاری بیان کے مطابق اجلاس میں وزیراعظم اور ان کے اہلخانہ پر لگائے گئے مضحکہ خیز الزامات کا مکمل دفاع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جو اُن لوگوں کی جانب سے لگائے گئے، جو پراپیگنڈے کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں.

اجلاس میں اس بات کی بھی مذمت کی گئی کہ کچھ لوگ اپنے ذاتی مقاصد کے لیے جمہوریت کو غیر مستحکم کرنے کی غرض سے دوبارہ سے سرگرم ہوگئے ہیں. اس بات کا بھی فیصلہ کیا گیا کہ قوم کو ان عناصر کے حوالے سے مکمل آگاہی فراہم کی جائے جو معاشی طور پر ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں.

یہ خبر 15 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024