پاکستانی مہاجرین کی 58 فیصد تعداد بچوں پر مشتمل
اسلام آباد: یونائیٹڈ نیشن چلڈرنز فنڈ (یونیسیف) نے اپنی رپورٹ میں انشکاف کیا ہے کہ پاکستانی مہاجرین کی 58 فیصد تعداد بچوں پر مشتمل ہے اور یہ تعداد جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ برس تقریباً 3 لاکھ پاکستانیوں نے دیگر ممالک میں ہجرت کی اور ان میں 58 فیصد تعداد بچوں کی تھی۔
یونیسیف کا کہنا ہے کہ عدم استحکام اور داخلی تنازعات کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے تاہم دیگر ممالک سے 16 لاکھ مہاجرین نے پاکستان کا بھی رخ کیا۔
’اپ روٹڈ‘ کے عنوان سے جاری اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بیشتر ایشیائی ممالک میں جاری تنازعات، غیر یقینی صورتحال، قدرتی آفات اور تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی وہ عناصر ہیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگ براعظم کے اندر ہی ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔
پر تشدد واقعات کی وجہ سے ایشیا میں ایک کروڑ 92 لاکھ افراد اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے جو کہ دنیا بھر میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد کا 47 فیصد ہے۔
2015 میں ایشیا میں مہاجرین کی تعداد 10 کروڑ 40 لاکھ رہی جو دنیا بھر میں مہاجرین کی مجموعی تعداد کا 43 فیصد ہے اور زیادہ تر افراد نے ایشیا کے اندر ہی ہجرت کی۔
رپورٹ کے مطابق 5 کروڑ 90 لاکھ سے زائد ایشیائی باشندے اپنے پیدائشی ملک کے بجائے کسی دوسرے ملک میں مقیم ہیں اور مہاجرین کا زیادہ بہاؤ جنوبی ایشیا سے مغربی ایشیا کی جانب دیکھنے میں آیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایشیا سے تعلق رکھنے والے 4 کروڑ مہاجرین نے دوسرے براعظموں میں سکونت اختیار کی، ان میں سے نصف مہاجرین یورپ کی جانب گئے اور یہ دو بڑے خطوں کے درمیان مہاجرین کی دوسری بڑی منتقلی تھی۔
اس کے علاوہ ایک کروڑ 55 لاکھ ایشیائی باشندوں نے شمالی امریکا کی جانب سفر کیا اور دنیا میں موجود کل مہاجر بچوں میں سے ایک کروڑ 20 لاکھ (40 فیصد) بچے ایشیا میں رہتے ہیں۔
ایشیا میں مہاجر بچوں کی موجودگی کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے تاہم دنیا کے دیگر خطوں کے مقابلے میں یہاں بچوں کی ہجرت کی شرح نہایت کم ہے۔
مہاجرین کی نقل و حرکت
ایشیا میں مہاجرین کی مجموعی تعداد میں ایک کروڑ 20 لاکھ بچے بھی شامل ہیں جس کی شرح 16 فیصد بنتی ہے تاہم عالمی سطح پر مہاجر بچوں کی مجموع تعداد کے اعتبار سے یہ شرح 39 فیصد بنتی ہے۔
ایشیا میں مہاجرین کی منزل کا تعین دو عناصر کرتے ہیں، ان میں پہلا عنصر ملازمت کی تلاش میں اور دوسرا تنازعات کی وجہ سے کی جانب والی ہجرت ہے۔
ایشیا میں سب سے زیادہ مہاجر بچے سعودی عرب میں موجود ہیں جبکہ سعودی عرب مہاجر بچوں کی موجودگی کے اعتبار سے امریکا کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔
کویت اور متحدہ عرب امارات میں بھی بڑی تعداد میں مہاجر بچے موجود ہیں۔
دنیا کے دیگر خطوں کی طرح ایشیا میں بھی کسی دوسرے ملک ہجرت کرنے والے بچوں کے لیے یا تو ترقی کے بہترین مواقع منتظر ہوسکتے ہیں یا پھر انہیں خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
آیا ایشیائی بچے اپنی تعلیمی ہجرت یا حصول روزگار کیلئے والدین کی ہجرت سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے یا وہ صرف تنازعات کے باعث گھروں کو چھوڑنے کے منفی اثرات کا ہی سامنا کریں گے، اس کا دارومدار عالمی رہنماؤں کی جانب سے لیے جانے والے فیصلوں پر ہوگا۔
یہ خبر 8 ستمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی