• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

ریٹنگ کے لیے سالا کچھ بھی کرے گا

شائع October 24, 2016 اپ ڈیٹ October 25, 2016
اس پورے واقعے سے میڈیا کے اداروں، ان کی اخلاقیات، اسٹاف کی پیشہ وارانہ تربیت اور احساسِ ذمہ داری کے بارے میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں.
اس پورے واقعے سے میڈیا کے اداروں، ان کی اخلاقیات، اسٹاف کی پیشہ وارانہ تربیت اور احساسِ ذمہ داری کے بارے میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں.

کیبل آپریٹنگ کے بزنس میں بہت پیسا ہے۔ اتنا کہ کچھ ہی عرصے بعد ایک کیبل آپریٹر اپنا ٹیلی ویژن چینل شروع کر لیتا ہے۔

اس ٹیلی ویژن چینل میں وہ ایسے لوگوں کو بھرتی کرتا ہے جنہیں نہ ابلاغِ عامہ کی سوجھ بوجھ ہوتی ہے اور نا ہی جرنلزم کی الف ب سے واقف ہوتے ہیں۔

ان کے ہاتھ میں کیمرے اور مائیک پکڑا کر بھیج دیا جاتا ہے کہ جاؤ یہ دنیا تمہارے نشانے پر ہے، خوب کھل کر کھیلو، جس کا چاہے پیچھا کرو، جسے چاہے لعنت ملامت کرو، کوئی تمہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں، اور پھر وہی ہوتا ہے جو کچھ دن پہلے نجی چینل کی خاتون رپورٹر کے ساتھ ہوا۔

جذبات کی عینک کو ایک جانب رکھ کر صرف ایک سوال پر غور کریں۔ تصور کریں کہ آپ ایک کار یا ٹیکسی میں سفر کر رہے ہیں جس کا اسٹیئرنگ وہیل کسی اناڑی ڈرائیور کے ہاتھ میں ہے۔ ذرا بتائیں نتیجہ کیا ہوگا؟ چلیں اتنا ہی بتا دیں کیا آپ کسی ایسے ڈاکٹر سے اپنا علاج کروانا پسند کریں گے جس نے کبھی میڈیکل کالج کی شکل بھی نہ دیکھی ہو؟ ہرگز نہیں۔

پڑھیے: ریٹنگز کا آزمودہ فارمولا

لیکن ایسا کچھ حال ہمارے یہاں ٹیلی ویژن چینلز کا ہے جہاں صحافت کے نام پر غیر تربیت یافتہ رپورٹرز کو فیلڈ میں بھیج دیا جاتا ہے اوروہ کسی خرانٹ سانڈ کی مانند کیمرے اور مائیک اٹھائے پبلک پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔

جن جگہوں پر پولیس بھی قانون کے مطابق بغیر وارنٹ کے نہیں جا سکتی، یہ لوگ وہاں بھی آزادیء اظہار رائے اور حقِ معلومات کے نام پر غل غپاڑہ مچا کر مجمع اکٹھا کر لیتے ہیں۔

مذکورہ واقعے میں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال نظر آئی۔ معذرت کے ساتھ لیکن خاتون رپورٹر ایک صحافی کم اور کسی پسماندہ علاقے کی ناخواندہ رہائشی لگ رہی تھیں جو سیکیورٹی گارڈ کے چہرے کے آگے ہاتھ نچا نچا کر اسے ماں بہن اور غیرت کی دہائی دے رہی تھیں۔

اگر جذباتیت سے ہٹ کرغور کیا جائے تو مذکورہ واقعے کے پیچھے ان کا غیر پیشہ وارانہ رویہ اصل محرک تھا۔ پچھلے کئی سالوں سے میڈیا سے وابستہ رہنے کے باوجود خاتون رپورٹر ایک بنیادی اصول سے ناآشنا ہیں کہ سیکیورٹی اہلکار، چاہے وہ سویلین ہوں یا ملٹری، ان کے ساتھ دورانِ ڈیوٹی بحث مباحثہ بھی نہیں کیا جاتا، ان کی وردی پر ہاتھ ڈالنا تو دور کی بات ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں عوام کو یہ ہدایت ان کی اپنی حفاظت کے لیے دی جاتی ہے۔ سیکیورٹی اہلکاروں کو اکسانا اور ان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک قانوناً جرم ہے۔ خاص طور پر انہیں دورانِ ڈیوٹی وردی سے پکڑنا جسمانی حملے کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر خاتون نے یہ حرکت امریکا یا کسی یورپی ملک میں کی ہوتی تو بات فقط تھپڑ تک محدود نہ رہتی، بلکہ ہتھکڑیاں لگا کر فوری گرفتاری یقینی تھی۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز کی طرف سے کیے جانے والے اکثر اسٹنگ آپریشنز میں رپورٹر حضرات (اور خواتین بھی) کا یہ وطیرہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر اس قدر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ مقابل کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔

مزید پڑھیے: خبری گوشت کے تبصراتی کوفتے

بجائے اس کے کہ رپورٹرز اپنے پروگرام میں صرف عوام کو درپیش مسائل کی نشاندہی کریں، وہ پورے معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے موقع پر موجود ذمہ داران یا مجاز افراد سے تبصرہ لینے کے بجائے ان سے جوابدہی طلب کرنے لگتے ہیں۔

اب اس طرزِ عمل کی وجہ واقعی جذبات ہوتے ہیں یا کچھ اور، وہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ مگر اس قسم کے پروگرام دیکھتے ہوئے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے صورتِ حال کو سنسنی خیز بنانے کے لیے رپورٹر جان بوجھ کر مقابل فرد کو اشتعال دلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجائے جو کہ ان کے چینل کی ریٹنگ کے لیے فائدہ مند ثابت ہو۔

چنانچہ ایک ایسا چینل جسے کُل آبادی کا کوئی دو تین فیصد بھی بمشکل دیکھتا ہوگا، اس کا نام پچھلے کچھ دنوں سے ہر خاص و عام کی نوکِ زباں پر اس کا ذکر ہے۔

ان کے اس رویے کا نشانہ اکثر کم حیثیت کا عام آدمی بنتا ہے۔ وہ عام آدمی جو دال روٹی کے چکر میں پہلے ہی گھن چکّر بنا ہوا ہے، اپنے ساتھ ہونے والے ذلت آمیز سلوک پر بھنّا اٹھتا ہے۔ نادرا آفس کے احاطے میں پیش آنے والے واقعے میں اگر مدِمقابل کوئی ایف سی کا کوئی افسر ہوتا تو خاتون کا لہجہ اور رویہ یقیناً مختلف ہوتا۔

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایف سی اہلکار نے جو تھپڑ مارا وہ درست تھا۔ کسی کے چہرے پر طمانچہ مارنا نہایت غیر اخلاقی اور غیر پیشہ وارانہ طرزِ عمل ہے، خاص طور پر اگر سامنے کوئی عورت ہو۔ کیا ہمارے سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت میں یہ بات شامل نہیں ہے؟

اگر خاتون نے اتنا ہی اکسایا تھا، یا ڈیوٹی میں مداخلت کی تھی یا اپنی حدود عبور کی تھیں تو کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ ان سے قانونی طریقہء کار اختیار کرتے ہوئے پیش آیا جاتا۔ اور پھر عوام سے بھرے ہوئے سرکاری آفس میں کسی کو ہراساں کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ، کیا یہ کسی بھی طرح سے ایک ذمہ دار سیکیورٹی اہلکار کا رویہ ہو سکتا ہے؟

جانیے: نیم عسکری اہلکاروں کی تربیت پر سوالیہ نشان

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس تمام معاملے میں پیمرا کیا کررہا ہے؟ کیا پیمرا کی یہ ذمہ داری نہیں کہ ٹیلی ویژن چینلز کو پابند بنائے کہ رپورٹنگ، خاص طور سے عوامی مقامات پر کی جانے والی رپورٹنگ کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ رپورٹرز رکھے جائیں، یا ان کی پوری طرح ٹریننگ کے بعد ہی انہیں فیلڈ رپورٹنگ کے لیے بھیجا جائے؟

کیا سرکاری دفاتر کے اندر عوامی مسائل کے حل کے لیے کیمرا لے کر دندناتے پھرنے کی اجازت قانون میں موجود ہے؟ اگر نہیں ہے تو پیمرا کے ضابطہء اخلاق میں اس اہم نکتے کا ذکر کیوں نہیں؟

ضابطہء اخلاق میں جہاں ناانصافی، بدعنوانی یا جرائم کو بے نقاب کرنے کو عوامی مفاد قرار دیا گیا ہے، تو وہیں یہ نکتہ بھی موجود ہے کہ "عوامی مفاد میں جس سے انٹرویو کرنا ہے اس کی اجازت کے بغیر کوئی انٹرویو نہ کیا جائے اور نہ ہی اس کی کوشش کی جائے۔" کیا ہمارے چینلز اس نکتے کی پابندی کرتے ہیں؟ اور کیا پیمرا اس نکتے پر عملدرآمد کرواتا نظر آتا ہے؟

اس پورے واقعے سے میڈیا کے اداروں، ان کی اخلاقیات، اسٹاف کی پیشہ وارانہ تربیت اور احساسِ ذمہ داری کے بارے میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں.

مگر اس پوری بحث کا رخ نہایت کامیابی سے صرف خاتون سے ہونے والے برے سلوک کی طرف موڑ کر ریٹنگز کی گنگا میں اچھی طرح ہاتھ دھو لیے گئے۔

مقصد پورا ہوا، کچھ دن بعد پھر ایسا ہی کوئی پروگرام ہوگا، اور ایسا ہی کوئی واقعہ پیش آئے گا جس پر کئی دن تک تجزیے چلیں گے۔ پاکستانی ٹی وی ناظرین پر ترس آتا ہے کہ ان کے دیکھنے کے لیے یہی سرکس رہ گیا ہے۔

ناہید اسرار

ناہید اسرار فری لانس رائیٹر ہیں۔ انہیں حالات حاضرہ پر اظہارخیال کا شوق ہے، اور اس کے لیے کی بورڈ کا استعمال بہتر سمجھتی ہیں- وہ ٹوئٹر پر deehanrarsi@ کے نام سے لکھتی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (6) بند ہیں

ali Sabir Oct 24, 2016 03:36pm
hi, i am ali sabir from bank alfalah, i was also journalist and worked as staff reporter, right now i have read a column of deehanrarsi@ regarding media rating . i think it is voice of every people not special Pakistanis every where such type peoples uses his/her power wrongly and they use their power special in growing countries.we strongly condemn such type reporting and such type react of any person who rise their hands on women. i like her column. Regard Ali Sabir
zeshan Oct 24, 2016 03:56pm
Now every one knows that no one has trained the lady reporter to do what exactly she did and they way she did or doing...so is the case with the cop..no one has train him or told him specifically that if something happens like this and you encounter with a woman, and you can just slap her. In short, we as nation should accept it, that our behaviors while in public are so pathetic and shameful, like you go anywhere...banks..govt offices, railway station, airport, public park, shopping malls, you travel on the road (drive), look at our behavior, one can write a monster book on it.
Asim Oct 24, 2016 07:48pm
Unfortunately no one addressing the core problem Creator that is NADRA.
Inder Kishan Thadhani Oct 25, 2016 01:07am
Good Read.
محمد آصف ملک Oct 25, 2016 05:34pm
حقیقت پر مبنی تجزیہ ۔۔ بہت اعلیٰ زیادہ تر الیکٹرانک میڈیا انتہائی بد تہذیبی اور جہالت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ سیکورٹی اہلکار کا ردعمل فطری تھا آخر وہ بھی انسان ہے ۔
Neelofer aman Oct 25, 2016 11:22pm
Agreed!

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024