• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

پاناما کیس: قطری شہزادے کا ایک اور خط پیش کردیا گیا

شائع January 26, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر درخواستوں کی سماعت کے دوران وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن اور حسین نواز نے اضافی دستاویزات پر مشتمل جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا، جس میں قطری شہزادے کا ایک اور خط بھی شامل ہے۔

قطری شہزادے کی پروفائل کا عکس—۔فوٹو/ڈان نیوز
قطری شہزادے کی پروفائل کا عکس—۔فوٹو/ڈان نیوز

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لاجر بینچ نے جب سماعت کا آغاز کیا تو حسن اور حسین نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے عدالت عظمیٰ میں اپنے موکلین کی جانب سے جواب جمع کروایا۔

وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کی پروفائل شامل ہے، جس میں قطری شہزادے کی کاروباری تفصیلات بھی فراہم کی گئیں، جن کے مطابق شیخ حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا کاروبار دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔

قطری شہزادے کا 22 دسمبر 2016 کو لکھا گیا ایک اور خط بھی دستاویزات کا حصہ بنایا گیا ہے، شہزادہ جاسم کے مطابق انھوں نے اپنے پہلے خط پر اٹھائے گئے سوالات کے جواب میں دوسرا خط تحریر کیا۔

قطری شہزادے کے دوسرے خط کا عکس—۔ڈان نیوز
قطری شہزادے کے دوسرے خط کا عکس—۔ڈان نیوز

خط کے متن کے مطابق میاں شریف نے 1980 میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی سرمایہ کاری کی، یہ سرمایہ کاری نقد کی صورت میں کی گئی، 2005 میں اس سرمایہ کاری کے ضمن میں ان پر شریف خاندان کے 80 لاکھ ڈالر واجب الادا تھے، جنھیں نیلسن اور نیسکول کمپنی کے شیئرز کی صورت میں ادا کیا گیا، نیلسن اور نیسکول کے بیرئیر سرٹیفیکیٹ کی ادائیگی لندن کے کاروباری شخصیت وقار احمد کے ذریعے کی گئی۔

حسین اور حسن نواز نے اپنے جواب میں مزید بتایا کہ دبئی اسٹیل ملز بینکوں اور دبئی حکومت کے تعاون سے بنائی گئی، میاں شریف کی درخواست پر الثانی خاندان نے جدہ اسٹیل ملز میں 45 لاکھ ڈالر لگائے، میاں شریف کی وفات کے بعد قطری شہزادے نے حسین نواز کو اس سرمایہ کاری کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور الثانی خاندان کا ایک نمائندہ شریف خاندان سے جدہ میں ملا، جس کے بعد رقم کی واپسی کے لیے لندن کے انٹر بینک ریٹ کے مطابق ادائیگی پر اتفاق ہوا، اس سلسلے میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کی رقم دبئی اسٹیل ملز کی فروخت سے حاصل کی گئی، جس کے گواہ طارق شفیع ہیں۔

طارق شفیع کا بیان حلفی، 1980 میں دبئی فیکٹری کی فروخت اور اس کی متعلقہ دستاویزات، عزیزیہ اسٹیل مل کی خرید و فروخت سے متعلق دستاویزات کی کاپی، التوفیق کیس سے متعلق حدیبیہ پیپر ملز کے آڈٹ کی کاپیاں بھی وزیراعظم کے صاحبزادوں کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاویزات کا حصہ ہیں۔

یاد رہے کہ اس سے قبل نومبر 2016 میں سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سماعت کرنے والے لارجر بینچ کے سامنے شریف خاندان کے وکلاء نے قطری شہزادے کا خط پیش کیا تھا۔

مزید پڑھیں:قطری شہزادے کا خط اور وزیراعظم کا موقف مختلف: سپریم کورٹ

عدالت میں پیش کیے گئے قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والد اور نواز شریف کے والد کے درمیان طویل عرصے سے کاروباری تعلقات تھے، میرے بڑے بھائی شریف فیملی اور ہمارے کاروبار کے منتظم تھے۔'

خط کے مطابق '1980 میں نواز شریف کے والد نے قطر کی الثانی فیملی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں سرمایہ کاری کرنے کی خواہش ظاہر کی، میرے خیال میں 12 ملین درہم نواز شریف کے والد نے ہمارے کاروبار میں لگائے، جو انھوں نے دبئی میں اپنے بزنس کو فروخت کرکے حاصل کیے تھے۔'

یہ بھی پڑھیں:’قطری شہزادے کے خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں‘

حماد بن جاسم بن جابر الثانی نے خط میں مزید کہا کہ 'لندن کے 4 فلیٹس (16، 16اے ، 17 اور 17 اے ایون فیلڈ ہاؤس، پارک لین ، لندن) دو آف شور کمپنیوں کے نام رجسٹرڈ تھے، ان آف شور کمپنیوں کے شیئر سرٹیفکیٹ قطر میں موجود تھے، لندن کے فلیٹس قطر کے رئیل اسٹیٹ بزنس کے منافع سے خریدے گئے اور دونوں خاندانوں کے تعلقات کی بناء پر یہ فلیٹس شریف خاندان کے زیر استعمال تھے جس کا وہ کرایہ دیتے تھے۔'

جس کے بعد قطری شہزادے کے خط پر تنقید کا آغاز ہوگیا اور یہ کہا گیا کہ شریف خاندان پاناما کیس سے بچنے کے لیے قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے۔

جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم کا جواب

وزیراعظم کی نااہلی کے حوالے سے جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نواز شریف نے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔

جواب میں کہا گیا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں خطاب کے دوران کوئی غلط بیانی نہیں کی اور نہ ہی بطور رکن اسمبلی اور وزیراعظم انھوں نے حلف کی خلاف ورزی کی۔

جواب میں مزید کہا گیا کہ لندن فلیٹس وزیراعظم کی ملکیت نہیں اور وزیراعظم ان چاروں فلیٹس میں سے کسی کے بھی بینیفشل مالک نہیں۔

مریم نواز کے وکیل کے دلائل

سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ شادی شدہ خاتون والد کے زیر کفالت کی تعریف میں نہیں آتی، تاہم اگرکوئی شادی شدہ خاتون والدین کے ساتھ رہے اور اس کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو تو وہ زیرکفالت کے دائرے میں آئے گی۔

انھوں نے بتایا کہ زیر کفالت کی تعریف میں بیوی اور نابالغ بچے بھی آتے ہیں اور اس میں بزرگ اور بے روزگار افراد کو شامل کیا جاسکتا ہے۔

شاہد حامد کا مزید کہنا تھا کہ زیر کفالت کے معاملے پر انکم ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

جسٹس اعجازاالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 2011 کے ٹیکس فارم میں مریم نواز کو زیر کفالت دکھایا گیا ہے۔

جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ انکم ٹیکس قانون میں دیگر کا خانہ زیرکفالت کی کیٹگری ہے۔

جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ انکم ٹیکس قانون میں مخصوص کیٹگری 2015 میں شامل کی گئی۔

اس موقع پر جسٹس عظمت سعید نے شاہد حامد کو مخاطب کرکے کہا کہ ہم آپ کی معاونت سے قانون کی تشریح کر سکتے ہیں۔

انھوں نے مزید استفسار کیا کہ اگر کوئی اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیداد رکھے تو کیا وہ بے نامی ہوگی؟

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر مشترکہ خاندانی کاروبار ہو اور بچے بڑے ہو چکے ہوں تو کیا صورتحال ہو گی؟ کیا مشترکہ کاروبار میں تمام بچے زیر کفالت تصور ہوں گے؟

جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ اس حوالے سے کوئی واضح تعریف نہیں کی جا سکتی بلکہ کیس ٹو کیس معاملہ ہوتا ہے۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ اگر کوئی شخص خاندان کا سربراہ ہو تو بچے اور ان کے بچے زیر کفالت ہو جائیں گے؟کاروباری خاندان میں مضبوط آدمی ایک ہوتا ہے، وہ مضبوط شخص پورے خاندان کو چلاتا ہے، کیا ہم پورے خاندان کو بلاسکتے ہیں جو اس مضبوط شخص کے زیر کفالت ہیں؟

ان کا مزید کہنا تھا کہ بالغ بچے اپنا کاروبار ہونے کے باوجود خاندان کے بڑے سے خرچہ لیتے ہیں، کیا وہ بھی زیر کفالت تصور ہوں گے؟

جس پر شاہد حامد نے جواب دیا کہ جذباتی اور ثقافتی طور پر زیر کفالت ہوتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون میں بھی زیر کفالت کی تعریف نہیں کی گئی، ڈکشنری کے مطابق مکمل طور پر دوسرے پر انحصار کرنے والا زیر کفالت ہوتا ہے اور اگر قانون واضح نہ ہو تو عام ڈکشنری کے معنی ہی استعمال کیے جائیں گے۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعہ (27 جنوری) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

گذشتہ سماعت

سپریم کورٹ میں پاناما لیکس کی درخواستوں کی گذشتہ روز یعنی 25 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل شاہد حامد کا کہنا تھا کہ ان کی مؤکلہ کی کوئی بیرون ملک جائیداد نہیں، لندن فلیٹس ان کے بھائی کی ملکیت ہیں جبکہ ان کے بھائی بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ یہ جائیدادیں ان کی ہیں۔

مزید پڑھیں:پاناما کیس: ’جائیداد مریم نواز کی ہے تو بھی کیا فرق پڑتا ہے؟‘

شاہد حامد کا کہنا تھا کہ مریم نواز کے مطابق انہیں والد کے زیر کفالت کہا جارہا ہے، حالانکہ ایسا نہیں، ایسا صرف اس لیے کہا جارہا ہے تاکہ ان کے والد کو جائیدادوں کے معاملے میں ملوث کیا جاسکے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں ایک جرمن اخبار ‘Süddeutsche Zeitung’ کے ٹوئٹر پیغام کے ذریعے مریم نواز کے سامبا بینک کے کسٹمر ہونے کی دستاویزات منظرعام پر آئی تھیں۔

اخبار نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ 'جو پاکستانی پاناما پیپرز کے معاملے میں مریم صفدر کے کردار سے متعلق کسی شک و شبہ میں مبتلا ہیں وہ ان دستاویزات کی مدد سے خود ہی اندازہ لگا لیں'۔

یہ جرمن اخبار وہ پہلا میڈیا ادارہ ہے جسے پاناما اسکینڈل کی 11 ارب سے زائد خفیہ دستایزات موصول ہوئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:جرمن اخبار نے مریم نواز کا پاناما پیپر سے تعلق ظاہر کردیا

یاد رہے کہ 4 جنوری سے پاناما کیس پر درخواستوں کی سماعت سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف کھوسہ کی سربراہی میں قائم نیا 5 رکنی لارجر بینچ کررہا ہے جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس گلزار احمد شامل ہیں۔

پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ میں آئینی درخواستیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)،جماعت اسلامی پاکستان (جے آئی پی)، عوامی مسلم لیگ (اے ایم ایل)، جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024