لندن آباد
سال 1997 کے آس پاس کی بات ہے، برطانیہ میں ایک پاکستانی نے مجھ سے درخواست کی کہ کیا ہم سرے کے علاقے میں واقع راک ووڈ اسٹیٹ نامی ایک محل نما عمارت دیکھنے چل سکتے ہیں۔ ان دنوں یہ محل برطانیہ اور پاکستان کے میڈیا کی شہہ سرخیوں میں چھایا ہوا تھا۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہاں اس محل کا تذکرہ کیوں کیا جا رہا ہے، تو چلیے میں آپ کی مدد کیے دیتا ہوں۔ 350 ایکڑ کے رقبے پر بھیلی یہ ملکیت پاکستان میں سرے محل کے نام سے مشہور ہے جسے 1995 میں خریدا گیا تھا۔ محل کا معاملہ 1996 کے اواخر میں اس وقت عوام الناس کے کانوں تک پہنچا جب بے نظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی تھی۔
اپنی طویل قید و بند کے دوران سابق وزیر اعظم کے شوہر آصف علی زرداری نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ یہ محل، بلاواسطہ یا آف شور کمپنی کے ذریعے خریدی ہوئی، ان کی ملکیت ہے۔ 2004 میں انہوں نے محل کی ملکیت کو تسلیم کر لیا اور قریب 40 لاکھ پاؤنڈز میں فروخت کر دیا۔
مجھے یاد ہے کہ گرمیوں کے دن تھے اور دوپہر کے وقت کھلی دھوپ میں ہم دونوں وہ محل دیکھنے گئے، یہ عمارت، جنوبی لندن میں واقع، ہمارے دو کمروں والے کرائے کے فلیٹ سے قریب ایک گھنٹہ دور واقع تھی۔ ہم اس محل کے بڑے سے دروازے کے آگے رکے اور تصویریں کھینچنا شروع کر دیں۔
ایک گارڈ ہمارے پاس آیا اور ہمیں چلے جانے کو کہا۔ میں نے اس گارڈ کو اپنا بی بی سی کا آئی ڈی کارڈ دکھایا (میں اس وقت لندن میں کام کرتا تھا) اور کہا کہ ہم سڑک پر کھڑے ہو کر تصویر کھینچ رہے ہیں اور عمارت کے اندر داخل نہیں ہو رہے لہٰذا وہ ہمیں کسی صورت تصویر کھینچنے سے روک نہیں سکتا۔
مایوس ہو کر وہ گیٹ کی طرف چلا گیا، ہم مزید تصاویر کھینچتے رہے اور وہ کھڑے ہو کر ہمیں دیکھتا رہا۔ وہ محل نما گھر، وہاں موجود دیگر عمارتوں کی طرح سڑک سے کافی دور واقع تھا، اسی لیے ہمیں باؤنڈری وال کے علاوہ کچھ زیادہ کچھ نہیں آ رہا تھا، چنانچہ میری دلچسپی جلد ہی دم توڑ گئی اور میں لندن لوٹ گیا۔ بلکہ مجھ سے بھی پہلے وہاں موجود پاکستانی مہمان کی دلچسپی ختم ہو چکی تھی، وہ اس وقت سرکاری افسر تھے۔ جب انہوں نے محسوس کیا کہ ایک سی سی ٹی وی کیمرا ہماری مانیٹرنگ کر رہا ہے، بلکہ شاید غیر مدعو مہمانوں کی ریکارڈنگ بھی کر رہا ہے، تو انہیں فکر لاحق ہو گئی۔ انہیں یہ پریشانی تھی کہ اگر مالک کو کسی بھی طرح یہ پتہ چل گیا کہ وہ راک ووڈ اسٹیٹ کی جاسوسی کر رہے ہیں تو انہیں اس بات کی کافی بھاری رقم ادا کرنی پڑ جائے گی۔
حالانکہ اس کا مالک تو قید میں تھا اور اس کی عنقریب رہائی کا کوئی امکان بھی نہ تھا، مگر وہ پھر بھی پریشان تھا۔ "بھائی، آپ کو پتہ نہیں ہے۔ ایسے لوگ راتوں رات معاہدے کر کے آزاد ہو سکتے ہیں اور ہمارے جیسے بے آسرا لوگ مر جائیں گے۔"
ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ جب آصف علی زرداری "اپنے ظاہر وسائل سے بڑھ کر" ملکیت خریدنے کی سخت سزا کاٹ رہے تھے، تب ایک دوسرے سیاست دان، جو جلد ہی اقتدار میں آنے والے تھے، کے گھر والے لندن کے مخصوص اور انتہائی مہنگے علاقے مے فیئر میں فلیٹس خریدنے میں مصروف تھے۔
1997 میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے پی پی پی رہنماؤں کے خلاف بے رحمانہ کیسز بنا کر ان کے پیچھے پڑ جانے کا کام انسدادِ بدعنوانی کے کام پر مامور سینیٹر سیف الرحمن کو سونپا۔ سیف الرحمن کے زیادہ تر کیسز زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف تھے، جن کا تعلق بے نظیر کی 1993 سے 1996 تک رہنے والی حکومت سے تھا۔
کتنی عجیب بات ہے کہ اسی عرصے کے دوران 96-1993 میں پاناما پیپرز میں موجود 5 میں سے 4 فلیٹوں کو لندن کے اس مہنگے علاقے میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدا گیا تھا۔ پھر دو دہائیوں بعد پاناما پیپرز میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ یہ کمپنیاں شریف خاندان کے افراد کی ملکیت ہیں۔
نہ تو میں نے راک ووڈ اسٹیٹ کو اندر سے دیکھا ہے اور نہ ہی ایونفیلڈ ہاؤس میں واقع پانچوں میں سے کوئی ایک بھی فلیٹ دیکھا ہے۔ مجھے جس واحد فلیٹ پر آنے کے لیے مدعو کیا گیا وہ کینسنگٹن کے کوئینز گیٹ میں واقع بے نظیر بھٹو کی ہمشیرہ صنم کا فلیٹ تھا۔
چوکس اور سرخ آنکھوں کے ساتھ بھٹو صاحبہ راتوں رات دبئی سے پرواز پکڑ کر وہاں پہنچی تھیں، انہوں نے مجھ سے درخواست کی میں ان کے شوہر پر ہونے والے مبینہ تشدد پر ان کا رد عمل ریکارڈ کروں۔ کہا جاتا ہے کہ زرداری جب قید میں تھے تب نواز شریف کے تعینات کردہ پولیس اہلکاروں نے ان سے جرم قبول کروانے کے لیے ان کی زبان کاٹ دی تھی۔
مجھے یاد ہے کہ میں ایک چھوٹے سے کمرے میں ایک ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا اور میرے ساتھ بی بی سی کے ساؤنڈ انجینئر تھے جبکہ برابر والے کمرے میں بچے کھیل رہے تھے۔ وہ کافی چھوٹا فلیٹ تھا اور میں نے وہاں ایسی کوئی غیر معمولی بات نہیں دیکھی۔
میں تو پاکستان چلا گیا مگر ایجویئر روڈ کے قریب واقع ماربل آرک کی دوسری طرف واقع ایونفیلڈ ہاؤس اور رحمان ملک کے گھر ہی نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان میثاق جمہوریت پر مذاکرات ہوئے اور ان پر دستخط کیے گئے۔
ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین 20 سال سے زائد عرصے سے شمالی لندن کے علاقے مل ہل میں رہائش پذیر ہیں اور یہ تو ایک کھلی حقیقت ہے کہ کئی پاکستانی سیاستدانوں کے پاس لندن میں ذاتی ملکیتیں ہیں۔ لندن میں دولتمند پاکستانیوں کی جائیدادیں آپ کو حیرت میں ڈال دیں گی۔ ایسے افراد کی تعداد سیکڑوں میں بھلے ہی نہ ہو لیکن درجنوں میں ضرور ہے۔
پاکستان کے امیر لوگوں کو لندن میں جائیدادیں رکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے حتیٰ کہ ایسے وقت میں بھی جب عرصہ دراز سے رہائش پذیر لندن باسی بھی شہر کی مہنگائی برداشت نہیں کر پاتے اور دیگر علاقوں میں منتقل ہونے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مجھ سے ہی پوچھ لیجیے، ہمیں بھی وہاں سے منتقل ہونا پڑا تھا۔
اگر جنرلوں کے بارے میں پوچھیں اور کھرا جواب چاہیے، تو میں ایسے کسی جنرل کو ذاتی طور پر نہیں جانتا جس کے پاس لندن میں اپنی جائیداد ہو، ماسوائے جنرل مشرف کے، جو شریف خاندان کی طرح ہی اپنے فلیٹ کو تیل سے مالا مال خلیجی ریاستوں کے عرب شہزادوں کی سخاوت سے منسوب کرتے ہیں۔
دیگر سابق فوجی سربراہان جو پاکستان کے باہر جائیداد کے مالکان ہیں، ان میں نیوی کے سابق چیف منصور الحق (جن کا امریکا میں ایک باڑہ ہے) اور سابق آرمی چیف جنرل کیانی، خبروں کے مطابق انہوں نے آسٹریلیا میں جائیداد خریدی ہے اور انہوں نے ان خبروں کی کبھی تردید نہیں کی، شامل ہیں۔
ایسے افراد جو لندن میں خود کو اہم شخصیت ظاہر کرنے کے لیے وہاں آتے ہیں، ان میں سے اکثر افراد کو میں جانتا ہوں وہ مرکزی لندن میں مہنگے فلیٹس کے کرائے ادا کرنے کے وسائل رکھتے ہیں اور سارا دن بس خریداری، دوست احباب سے ملاقاتوں میں صرف کرتے ہیں۔ شام ہوتی ہے تو ایسے لوگوں میں سے دو یا تین صاحبان کو کسینو کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔
لندن آنے والے ایک غریب صحافی کی بات پھر کبھی۔ ہاں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ایسے لوگوں کا ٹھکانہ ہمارے ساتھ بی بی سی بش ہاؤس کے تہہ خانے میں موجود کلب ہوتا ہے۔ اور سستا کھانا کھانے کے لیے شہر سے باہر تک کا سفر کیا جا سکتا ہے۔
یہ مضمون 15 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔