• KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm
  • KHI: Zuhr 12:36pm Asr 5:18pm
  • LHR: Zuhr 12:06pm Asr 5:02pm
  • ISB: Zuhr 12:11pm Asr 5:12pm

پاناما فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے چند اہم سوالات

شائع July 30, 2017 اپ ڈیٹ July 31, 2017

پاناما فیصلے آنے کے بعد، سپریم کورٹ کا احترام قائم رکھنے کی خاطر اور معاملہ پر جلد بازی یا قبل ازوقت کوئی ایسا رد عمل دینے، جو کسی قسم کے تکرار کا باعث بن سکتا ہو، سے بچتے ہوئے بڑے محتاط انداز میں، معقول اور ذمہ دار حلقوں نے اپنے ابتدائی رد عمل میں عدالتی فیصلے پر فوری طور پر سیاسی اور قانونی قبولیت کی ضرورت پر زور دیا۔

اب جبکہ مختصر مگر آخری فیصلے پر قانونی برادری، سیاسی طبقہ اور عام لوگ مفصل جائزہ لے چکے ہیں، لہٰذا اس کے پاکستانی سیاست میں اس کی اہمیت کے بارے میں کھل کر بات ہونی چاہیے۔

ماہر اور آزاد حلقوں کی رضامندی دو حصوں پر مشتمل اور واضح ہے: نواز شریف کو بہت ہی معمولی قانونی جواز پیش کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ چھینی گئی ہے اور یہ عدالتی حکم نامہ ملک میں جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی غیرمطلوب قوت کا حامل ہے۔

اس صورتحال میں، چیف جسٹس ثاقب نثار کو، ایک مناسب پٹیشن قبول کرتے ہوئے، پاناما پیپرز کیس پر پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے پر نظر ثانی کے لیے فل کورٹ کا اجلاس بلانا چاہیے۔

اگر جمہوری سلسلے کو قائم و دائم اور مستحکم رکھنا ہے تو نظام کے تمام اصولوں کو واضح، غیر جانبدار اور شفاف ہونا چاہیے۔ ایسی امید کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ ٹھوس دلائل اور ٹھوس منطق کا حامل فیصلہ سنائے گی جو کہ ایک خاطر خواہ اور آسانی سے قابل عمل قانونی مثال قائم کرے گا۔ اس کے بجائے، اس فیصلے نے اب منتخب افسران کی نااہلی کے لیے درخواستوں میں ایک ٹھوس مثال کے طور پر اسانیاں پیدا کر دی ہیں جو کہ پارلیمانی شعبے میں بدنظمی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔

اس اخبار نے جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ کے سپرد ہونے کے بعد نواز شریف صاحب کو عارضی طور پر استعفیٰ دینے کے لیے کہا تھا اور بار بار اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو پاناما معاملے میں خود کو پہلے احتساب کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ مگر نواز شریف، بطور ایک شہری اور ایک قانونی طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے، کو قابل جواز طور پر غیر جانبدارانہ اور متناسب انصاف کی توقع تھی۔ جو کہ پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا جبکہ یہ وزارت عظمیٰ کے عہدے اور خود پارلیمنٹ کے مستقبل پر سنگین نتائج مرتب کرسکتا ہے۔

فیصلے پر خود سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا معیار مرتب کر سکتی ہے مگر چند سوالات جن کا جواب مطلوب ہے، وہ بالکل واضح ہیں۔ مثلاً، کیا قانون کے تحت، فیصلے میں دی گئی قابل وصول کی تعریف کے، صرف ایک ہی مفہوم کی گنجائش ہے؟ آرٹیکل 62 (1) (ف) کا معیار کیا ہے اور کیا بینچ نے اس کا مناسب انداز میں تعین کیا ہے؟ واضح کیا جائے کہ امیدواروں کے نامزدگی درخواستوں میں وہ کون سی چیزیں ہیں جو اثاثے ظاہر نہ کرنے کے ذمرے میں آتی ہیں اور وہ نااہلی کا سبب بن سکتی ہیں؟

جمعے کے روز سنائے جانے والے فیصلے کے بعد یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ تمام پارلیمانی اراکین کو سرکاری عہدے کے لیے اپنی قانونی اہلیت پر کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت غیر یقینی کا سامنا ہے۔ کئی پارلیمانی اراکین کی جانب سے کم مالی اثاثے ظاہر کرنے پر جو بھی جائز خدشات ہوں، لیکن ایک صورتحال جس میں 100 فیصد منتخب نمائندگان نااہلی کے مرتکب ٹھہرتے ہوں تو یہ صورتحال جمہوری تسلسل کے لیے ایک بہت ہی عدم استحکام کی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو فوری طور پر آگے آنا ہوگا اور ضروری وضاحت فراہم کرنے ہوگی۔

یہ اداریہ 30 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

اداریہ

تبصرے (3) بند ہیں

`KHAN Jul 30, 2017 07:00pm
نواز شریف ہمیشہ کرو فر سے حکومت کرتے ہیں مگر یہ واویلا کرنا نہیں بھولتے کہ ان کو حکومت نہیں کرنے دیا جارہا ہے ۔۔۔۔۔ حکومت نہیں کرنے دیا جاتا مگر کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی رفتار سے ترقی کرتا ہے، کبھی یہ نہیں کہا کہ کاروبار نہیں کرنے دیا جارہا ہے، اگر اب بھی اعتراض ہے تو قوم سے کھل کر بات کی جائے، ہم بھی ملک کو شام ، عراق اور افغانستان نہیں بنتا دیکھنا چاہتے۔۔۔ خیرخواہ
Israr Muhammad Khan Aug 01, 2017 02:21am
سپریم کورٹ کا فیصلہ سرآنکھوں پر لیکن نوازشریف کے حلاف نااہلی کے فیصلے کی بنیاد کمزور ھے فیصلہ کمزور ھے یہ اکثریت کی رائے ھے اس پر عدلیہ کی نظرثانی ناگذیر ھوچکی ھے تاکہ ابہام دور ھوسکے باقی قانون میں نااہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال ھے یہاں تاحیات کی تشریح کی جارہی ھے عدلیہ کو یہ ابہام بھی دور کرانا ھے مثال کے طور پر 307 میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی اسکیلئے علاوہ یہ سوال بھی اٹھ رہا ھے کہ پٹیشنز نے پاناما پیپر کو بنیاد بنایا کر فیصلہ کرنے کا تقاضا کیا تھا لیکن سزا بلکل دوسرے معاملے پر دی گئی اور بھی قابل وصول اور غیر قابل وصول کی بنیاد پر عمران کا جسٹس کھوسہ کے حوالے سے دعوے نے معاملہ مزید مشکوک بنادیا ھے اسکے علاوہ چند اخباری رپورٹ نے جی ائی ٹی کے ایف زیڈ کمپنی کے دستاویز کے حوالے چند سوال اٹھائے ھیں جو چھان کے متقاضی ھیں جاوید ہاشمی کے بیانات کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہئے تاکہ ابہام دور ھوسکے ورنہ اس فیصلہ کو کوئی بھی صدیوں یاد رکھنے والا فیصلہ نہیں مانے گا عوام کی شکوک کو ختم کرنے کیلئے عدلیہ کو خود قدم اٹھانے ھونگے ھماری خواہش ھےکہ عدلیہ کے فیصلوں پر کوئی انگلی نہ اٹھائے
Israr Muhammad Khan Aug 03, 2017 03:12am
صدیوں تک یاد رکھنے والے فیصلے پر بہت تبصرے ھوچکے ھیں جو کافی ھیں خاص کر قانون دانوں کی طرف سے جو رائے سامنے ائی ھے وہ سب کچھ بتاتی ھے پی ٹی آئی کے علاوہ باقی عوام دانشور تبصرہ نگار فیصلہ کو صدیوں والا فیصلہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں جسٹس کھوسہ کے حوالے سے عمران کی بیان کی سپریم کورٹ کی طرف سے جو وضاحت ائی ھے قانون جاننے والے اچھی نظر سے نہیں دیکھتے انکی دلیل یہ ھے کہ بجائے خود کے عمران حان سے وضاحت طلب کرنی چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ نےاپنی وضاحت میں عمران حان کی بیان سے لاتعلقی ظاہرکی ھے جو عمران کو غلط ثابت کرتی ھے ایسے میں سپریم کورٹ کا عمران حان سے وضاحت لینا بنتا ھے

کارٹون

کارٹون : 28 جون 2024
کارٹون : 27 جون 2024