پاناما فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے چند اہم سوالات
پاناما فیصلے آنے کے بعد، سپریم کورٹ کا احترام قائم رکھنے کی خاطر اور معاملہ پر جلد بازی یا قبل ازوقت کوئی ایسا رد عمل دینے، جو کسی قسم کے تکرار کا باعث بن سکتا ہو، سے بچتے ہوئے بڑے محتاط انداز میں، معقول اور ذمہ دار حلقوں نے اپنے ابتدائی رد عمل میں عدالتی فیصلے پر فوری طور پر سیاسی اور قانونی قبولیت کی ضرورت پر زور دیا۔
اب جبکہ مختصر مگر آخری فیصلے پر قانونی برادری، سیاسی طبقہ اور عام لوگ مفصل جائزہ لے چکے ہیں، لہٰذا اس کے پاکستانی سیاست میں اس کی اہمیت کے بارے میں کھل کر بات ہونی چاہیے۔
ماہر اور آزاد حلقوں کی رضامندی دو حصوں پر مشتمل اور واضح ہے: نواز شریف کو بہت ہی معمولی قانونی جواز پیش کرتے ہوئے وزارت عظمیٰ چھینی گئی ہے اور یہ عدالتی حکم نامہ ملک میں جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی غیرمطلوب قوت کا حامل ہے۔
اس صورتحال میں، چیف جسٹس ثاقب نثار کو، ایک مناسب پٹیشن قبول کرتے ہوئے، پاناما پیپرز کیس پر پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے پر نظر ثانی کے لیے فل کورٹ کا اجلاس بلانا چاہیے۔
اگر جمہوری سلسلے کو قائم و دائم اور مستحکم رکھنا ہے تو نظام کے تمام اصولوں کو واضح، غیر جانبدار اور شفاف ہونا چاہیے۔ ایسی امید کی جا رہی تھی کہ سپریم کورٹ ٹھوس دلائل اور ٹھوس منطق کا حامل فیصلہ سنائے گی جو کہ ایک خاطر خواہ اور آسانی سے قابل عمل قانونی مثال قائم کرے گا۔ اس کے بجائے، اس فیصلے نے اب منتخب افسران کی نااہلی کے لیے درخواستوں میں ایک ٹھوس مثال کے طور پر اسانیاں پیدا کر دی ہیں جو کہ پارلیمانی شعبے میں بدنظمی کا باعث بھی بن سکتی ہیں۔
اس اخبار نے جے آئی ٹی رپورٹ سپریم کورٹ کے سپرد ہونے کے بعد نواز شریف صاحب کو عارضی طور پر استعفیٰ دینے کے لیے کہا تھا اور بار بار اس بات کا اظہار کرتا رہا کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کو پاناما معاملے میں خود کو پہلے احتساب کے لیے پیش کیا جانا چاہیے۔ مگر نواز شریف، بطور ایک شہری اور ایک قانونی طور پر منتخب ہونے والے وزیر اعظم کی حیثیت سے، کو قابل جواز طور پر غیر جانبدارانہ اور متناسب انصاف کی توقع تھی۔ جو کہ پانچ رکنی بینچ کے آخری فیصلے میں ہوتا دکھائی نہیں دیتا جبکہ یہ وزارت عظمیٰ کے عہدے اور خود پارلیمنٹ کے مستقبل پر سنگین نتائج مرتب کرسکتا ہے۔
فیصلے پر خود سپریم کورٹ بھی نظر ثانی کا معیار مرتب کر سکتی ہے مگر چند سوالات جن کا جواب مطلوب ہے، وہ بالکل واضح ہیں۔ مثلاً، کیا قانون کے تحت، فیصلے میں دی گئی قابل وصول کی تعریف کے، صرف ایک ہی مفہوم کی گنجائش ہے؟ آرٹیکل 62 (1) (ف) کا معیار کیا ہے اور کیا بینچ نے اس کا مناسب انداز میں تعین کیا ہے؟ واضح کیا جائے کہ امیدواروں کے نامزدگی درخواستوں میں وہ کون سی چیزیں ہیں جو اثاثے ظاہر نہ کرنے کے ذمرے میں آتی ہیں اور وہ نااہلی کا سبب بن سکتی ہیں؟
جمعے کے روز سنائے جانے والے فیصلے کے بعد یہ کہنا غیر مناسب نہیں ہوگا کہ تمام پارلیمانی اراکین کو سرکاری عہدے کے لیے اپنی قانونی اہلیت پر کہیں نہ کہیں تھوڑی بہت غیر یقینی کا سامنا ہے۔ کئی پارلیمانی اراکین کی جانب سے کم مالی اثاثے ظاہر کرنے پر جو بھی جائز خدشات ہوں، لیکن ایک صورتحال جس میں 100 فیصد منتخب نمائندگان نااہلی کے مرتکب ٹھہرتے ہوں تو یہ صورتحال جمہوری تسلسل کے لیے ایک بہت ہی عدم استحکام کی صورتحال پیدا کر سکتی ہے۔
سپریم کورٹ کے فل کورٹ کو فوری طور پر آگے آنا ہوگا اور ضروری وضاحت فراہم کرنے ہوگی۔
یہ اداریہ 30 جولائی 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (3) بند ہیں