• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سیاسی لڈو کی دلچسپ کہانی

شائع December 5, 2018 اپ ڈیٹ January 8, 2019

مکھن/تیل، بیسن اور باریک کٹے ہوئے خشک میواجات سے بنی یہ پیلی ’رنگ کی گیند‘ جسے لڈو کہتے ہیں برِصغیر کی سب سے مشہور مٹھائی ہے، جس کی خاص وجہ بھی ہے۔

یہ مٹھائی جنوبی ایشیا میں ایجاد ہوئی تھی۔ خوراک اور ثقافت کی تاریخدان مادھولکا ڈیش کے مطابق لڈو کی ابتدا ہزاروں برس یا 4 قبل مسیح میں ہوئی تھی۔ 18 نومبر 2018ء کو دی انڈین ایکسپریس میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں ڈیش لکھتی ہیں کہ لڈو کو دوا کے طور پر ایجاد کیا گیا تھا۔ لڈو کو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے استعمال کیا جاتا تھا اور اسے بلوغت میں داخل ہونے والی لڑکیوں کو دیا جاتا تھا تاکہ انہیں جنسی جذبات (raging hormones) کو قابو میں رکھنے مدد مل سکے۔

اے کے سنہا اپنی کتاب اینتھراپالاجی آف سوئیٹ میٹس میں لکھتے ہیں کہ ’مٹھائیاں اہم مذہبی موقعوں پر بانٹی جاتی تھیں، اسی طرح پھر خوشی کے مواقعوں پر بھی مٹھائیاں تقسیم کرنے کی روایت شروع ہوگئی۔ یہی وہ وقت تھا جب لڈو دوائی سے بڑھ کر ایک مقبول مٹھائی کی حیثیت حاصل کرچکا تھا۔

دہلی سلطنت کے سلطانوں اور اس کے علاوہ مغلوں نے بھی لڈو کی حیثیت بڑھانے میں خاصا کردار ادا کیا۔ ڈیش کے مطابق ان سلطانوں نے لڈو میں کجھور، انجیر، میوے اور ایران سے لائے گئے سبزیوں کے بیج شامل کرکے ’شاہی لڈو‘ متعارف کروائے۔ تاہم ڈیش کہتی ہیں کہ جس صورت میں لڈو آج ہم دیکھتے ہیں اس کی ابتدا 300 برس قبل ہوئی تھی، جب برطانوی کالونیلسٹوں نے ہندوستان میں پہلی مرتبہ سفید چینی متعارف کروائی تھی۔ ڈیش کے مطابق، یہ بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ مقامی لوگ اس چینی کو ’سفید زہر‘ پکارتے تھے، لیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے محبوب لڈو میں اس سفید زہر کو بڑی مقدار میں شامل کرنے میں ذرا بھی کنجوسی نہیں کی۔

تو جناب، صدیوں سے لڈو ایک ایسی خاص مٹھائی رہی ہے جو جنوبی ایشیا میں ہندو اور مسلمان اپنے مذہبی تہواروں میں پیش کرتے رہے ہیں۔ ان خوشی کے موقعوں میں شادیاں، دیوالی، عید، بچے کی پیدائش، پیشے کا حصول یا تعلیم میں کامیابی، صوفی بزرگوں کے عرس، مقدس شخصیات کی ولادتوں کے دن وغیرہ شامل رہے ہیں۔

پھر فطری طور لڈو کھانے اور کھلانے کی روایت سیاسی کامیابیوں کے جشن کا بھی خاصہ بن گئی۔ لیکن سیاسی کامیابی پر لڈو یا مٹھائی کھانے اور کھلانے کی روایت جس طرح آج مقبول عام ہے، حیران کن طور پر یہ روایت اتنی پرانی معلوم نہیں ہوتی جتنی کہ آپ توقع کرتے ہوں گے۔ مثلاً، اپنی تحقیق کے دوران مجھے تقسیم سے قبل کے اہم انگریزی اور اردو اخبارات میں سے کسی ایک اخبار میں کوئی ایک بھی ایسی خبر نہیں مل سکی جس میں سیاسی جیت کے دوران لڈو یا مٹھائی تقسیم کی گئی ہو۔

1946ء جیسے اہم انتخابات کے نتائج پر شائع ہونے والی رپورٹس میں کہیں بھی کوئی ایسا تذکرہ نہیں ملا کہ انڈین نیشنل کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ کے امیدوار کامیاب ہونے پر لڈو سے محظوظ ہوئے۔ اور تو اور 1947ء میں برٹش کے خیرباد کہنے اور پاکستان و ہندوستان کو آزادی ملنے پر منائے جانے والے جشن کی مفصل رپورٹوں میں بھی لڈوؤں کا ایک آدھ بھی ذکر بھی نہ مل سکا۔

سیاسی وجوہات پر لڈو کی تقسیم کرنے کے حوالے سے سب سے پہلا تذکرہ ان لوگوں کی باتوں اور قصوں میں ملتا ہے جو 1958ء میں ہونے والی پاکستان کی پہلی فوجی بغاوت کے دوران زندہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کئی لوگوں نے لڈو بانٹ کر بغاوت کا جشن منایا تھا، اگرچہ ان کے اس دعوی کا کوئی شائع شدہ ٹھوس ثبوت تو نہیں ہے مگر ستم ظریفی دیکھیے کہ مجھے جند طلبہ کے بارے میں ایک خبر پڑھنے کا اتقاق ہوا جنہوں نے مارچ 1969ء میں ایوب خان کے استعفی دینے پر کراچی میں لڈو تقسیم کیے تھے۔ یہ خبر بند ہوچکے ماہنامے دی مرر کے اپریل 1969ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔

سیاسی مناسبت سے لڈو کی تقسیم کا ذکر 1969ء کے بعد اخبارات میں آسانی سے ملنا شروع ہوجاتا ہے۔ مثلاً، کئی اردو اخبارات میں ایسی تصاویر چھپی ملیں جن میں 1970ء کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو لڈو کھلائے جا رہے ہیں۔ اس کے بعد، 1974ء میں بنگلہ دیش ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں دسمبر 1971ء میں مشرقی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش بننے پر ڈھاکہ کی سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں لڈو بانٹے جانے کا ذکر ملتا ہے۔

مگر 1977ء کے بعد اچانک لڈوؤں کی سیاست میں بگاڑ پیدا ہوگیا۔ جے سی بترا نے 1979ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب دی 'ٹرائل اینڈ ایگزیکیوشن آف بھٹو'، اس کے علاوہ کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب 'اِن ویٹنگ فار اللہ' میں لکھا ہے کہ اپریل 1979ء میں جس دن ضیا آمریت نے سابق وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی تھی اس دن کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر چند افراد کو مٹھائی بانٹتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

ایسا ہی کچھ 1984ء میں بھارت میں ہوا۔ تمبیا اپنی کتاب 'لیولنگ کراؤڈز' میں لکھتے ہیں کہ سکھوں کی جانب سے بھارتی وزیرِاعظم اندرا گاندھی کے قتل پر لڈو بانٹنے کی خبروں نے ہی سکھ برادری کے خلاف پُرتشدد فسادات کو ہوا دی۔

ایس جے اقبال، تھرڈ ورلڈ انٹرنیشنل کے دسمبر 1988ء کے شمارے میں لکھتے ہیں کہ 'اگست 1988ء میں ضیا کی جہاز کے حادثے میں موت واقع ہونے پر پنجاب اور سندھ کے چند علاقوں میں جوش و خروش کے ساتھ لڈو بانٹے گئے تھے۔'

1988ء کے بعد، لڈو کا سیاسی استعمال بگاڑ سے بے تکے پن پر آگیا۔ 1988ء کے اواخر میں جب بے نظیر بھٹو وزیرِاعظم منتخب ہوئیں تو اخبارات میں پیپلزپارٹی کے حامیوں کی تصاویر چھپیں جن میں وہ لڈو تقسیم کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

پھر محض 2 برس بعد 1990ء میں ایک بار پھر ایسی ہی تصاویر اخبارات میں اس وقت شائع ہوئیں جن میں نواز شریف کے حامی سابق صدر غلام اسحاق خان کی جانب سے بے نظیر حکومت ختم کیے جانے پر لڈو بانٹتے نظر آئے۔

جس کے بعد اپریل 1993ء میں جب غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت برطرف کی تو مختلف اخبارات میں پیپلزپارٹی کے حامیوں کی ایک دوسرے کو لڈو کھلاتے ہوئے تصویریں شائع ہوئیں۔ پھر جب اسی سال مئی میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کی حکومت بحال کی تو ان کے حامیوں کی لڈو چباتے ہوئے تصاویر چھپیں۔ اسی طرح جب اکتوبر 1993ء میں بے نظیر بھٹو انتخابات میں کامیاب ہوئیں تو ایک بار پھر لڈو لڑک کر پیپلزپارٹی کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ پھر جب 1996ء میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت ختم ہوئی تو لڈو کا ذائقہ ایک بار پھر خوشی میں نہال مسلم لیگ (ن) کے حامیوں نے چکھا۔

جنرل مشرف کی اکتوبر 1999ء کی بغاوت بھی لڈو کے پاگل پن سے محروم نہ رہ سکی۔ بلکہ میتھیو جوسف اپنی کتاب 'انڈراسٹینڈنگ پاکستان اور فیروز خان اپنی کتاب میں ایٹنگ گراس' میں لکھتے ہیں کہ 'ان دنوں اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوئے تھے جن میں مشرف کی بغاوت کے دن سیکڑوں پاکستانیوں کی جانب سے لڈو بانٹنے اور رقص کیے جانے کا تذکرہ ملتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ 17 جولائی 2016ء کو عمران خان نے یہ بیان دیا تھا جو اخبارات نے کچھ یوں شائع ہوا کہ، ’اگر پاکستان میں فوج آجائے تو لوگ مٹھائیاں تقسیم کریں گے۔' عمران خان اس وقت حزبِ اختلاف میں تھے، لیکن کیا ’امپائر‘ کے میٹھے کے شوق کو تصوراتی سیاسی لڈو کے ذریعے اکسانا معقول بات تھی؟ مگر اب چونکہ وہ خود اقتدار میں ہیں اس لیے مجھے یقین ہے کہ وہ ایسا کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے ایئوس میگزین میں 25 نومبر 2018ء کو شائع ہوا۔

ندیم ایف پراچہ

ندیم ایف پراچہ ثقافتی تنقید نگار اور ڈان اخبار اور ڈان ڈاٹ کام کے سینئر کالم نگار ہیں۔ انہوں نے پاکستان کی معاشرتی تاریخ پر اینڈ آف پاسٹ نامی کتاب بھی تحریر کی ہے۔

ٹوئٹر پر فالو کریں:NadeemfParacha@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024