’40 سال پہلے کا کراچی واپس لانا اب ممکن نہیں‘
سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ غیر قانونی تعمیرات کو گرا کر کراچی کی 40 سالہ پرانی ‘شان و شوکت‘ دوبارہ بحال کی جائے۔ لیکن سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ یہ ناممکن ہے۔
1981ء میں کراچی کی آبادی 54 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی اور آج ایک کروڑ 70 لاکھ ہے۔ 1978ء میں کچی آبادی 20 لاکھ تھی اور آج ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ سے زائد ہے۔ 2005ء میں گاڑیوں کی تعداد 23 لاکھ 59 ہزار 256 تھی اور 2018ء میں یہ تعداد 46 لاکھ 42 ہزار 196 تک جا پہنچی تھی۔ 1995ء میں جہاں موٹر سائیکلوں کی تعداد 3 لاکھ 61 ہزار 616 تھی وہیں 2018ء میں یہ تعداد بڑھ کر 28 لاکھ 56 ہزار 704 ہوگئی۔ دوسری طرف، گزشتہ 40 برسوں میں کراچی کا شہری پھیلاؤ بھی دگنا ہوچکا ہے۔
40 سال کیا بلکہ 1947ء سے ہی کراچی اور اس کے ماسٹر پلانز نہ تو بڑھتی آبادی کی ضروریات کا ٹھیک اندازہ لگا پائے ہیں اور نہ ہی ان کی ضروریات کو پورا کرسکے ہیں۔ نتیجتاً شہر میں بے ضابطہ انداز میں گھروں، صنعتی علاقوں، بازاروں، گوداموں اور کارگو و بس ٹرمینل بنائے جانے لگے۔
40 برس پرانے کراچی کے ماسٹر پلان کے مطابق خلاف ضابطہ قرار دی جانے والی تعمیرات کو گرا دیا گیا تو اس سے شہر کا سماجی و معاشی ڈھانچہ تباہ ہوجائے گا اور سڑکیں بے گھر افراد سے بھر جائیں گی۔
حالیہ شہر میں تجاوزات کو گرائے جانے کے غیر منصوبہ بند، منتخب اور غریب مخالف عمل نے شہر کی بے ضابطہ معیشت (informal economy) کو تباہ کردیا ہے۔ 11 ہزار سے زائد چھوٹے کاروبار متاثر اور 3 لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں جبکہ صارفین الگ پریشان ہیں کہ سامان کہاں سے خریدا جائے۔ دوسری طرف منہدم بازاروں کا ملبہ اٹھانے کے لیے مقامی حکومت کے پاس پیسے تک نہیں ہیں۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ ہاکرز اور بازار چلانے والوں کو ان کی کاروباری جگہوں پر اس منظم طریقے سے لایا جائے جس سے شہر کی کار گزاری کسی طرح بھی متاثر نہ ہو، ساتھ ہی ساتھ کراچی کی متاثرہ بے ضابطہ معیشت بھی بحال ہوسکے۔
حالات کو بہتر بنانے کے لیے یہ پتہ لگانا نہایت ضروری ہے کہ کون سی عمارت یا دکان اجازت کے بغیر تعمیر کی گئی ہے اور یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ان سے سماجی و اقتصادی طور پر شہر کو کس طرح فائدہ پہنچایا جائے، پھر ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ریگولرائز کیا جائے
غیر قانونی تعمیرات کے ذمہ دار افراد پر ریگورائزیشن (regularisation) کی بھاری فیس یا جرمانہ (قید کی سزا بھی شامل کی جاسکتی ہے) عائد کردیا جائے، پھر ان پیسوں کو اس علاقے کی بہتری کے لیے خرچ کیا جائے جہاں ان افراد کی جائیداد ہے۔ تاہم وہ تعمیرات جو شہر کے لیے ماحولیاتی اعتبار سے نقصان دہ ہیں یا پھر ایسی جگہ پر بنی ہوئی ہیں جہاں اہم انفرااسٹریکچر منصوبوں کے لیے زمین درکار ہے تو وہاں تجاوزات کو گرا دیا جائے، صرف ان متاثرین کو ہی متبادل جگہیں فراہم کی جائیں جن سے غلط طریقے سے فائدہ اٹھایا گیا تھا۔
اب جبکہ قابلِ احترام لارڈ صاحبان نے انتظامی فیصلے لینا شروع کردیے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ایسے متعدد منصوبوں میں کو بھی زیرِ غور لائیں جن سے کراچی کو فائدہ حاصل ہوگا۔ شارع فیصل سے جنوب، لیاری ندی سے شمال، پورٹ سے مغرب جبکہ پرانی سبزی منڈی سے مشرق کے درمیان موجود علاقے (جہاں کراچی کے باضابطہ اور بے ضابطہ کاروباری مراکز واقع ہیں) تک ان 13 سڑکوں کے ذریعے پہنچا جاسکتا ہے جسے لاکھوں لوگ اور گاڑیاں کام پر جانے اور واپس آنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
اس علاقے میں ٹریفک انتظامیہ اور سرکولیشن پلان کی اشد ضرورت ہے تاکہ لوکل ٹریفک، آہستہ و تیز رفتار ٹریفک اور پیدل افراد و گاڑی سواروں کی آمد و رفت کے لیے علیحدہ علیحدہ راستے بنائے جاسکیں۔ یہ اقدام ٹریفک مسائل کا پائیدار حل ثابت ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ کار پارکنگ کی جگہ بھی زیادہ حاصل ہوسکے گی۔
لارڈ صاحبان حکومتِ سندھ اور کراچی میٹروپولیٹن کووپریشن (کے ایم سی) کو 10 ہزار بڑی بسیں سڑکوں پر اتارنے کے ساتھ ساتھ ان ڈرائیوروں، کنڈیکٹروں اور ٹریفک مینیجرز کے لیے مناسب تربیت گاہ بنانے کا حکم دینے پر بھی غور کرسکتے ہیں جو اکیلے کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام چلائیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کیونکہ بی آر ٹی ماس ٹرانزٹ منصوبہ تو روزانہ کی بنیاد پر کراچی کی 5 فیصد سے زائد آبادی کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوگا۔
ایک اور مسئلہ جس نے کراچی سرکولر ریلوے کی زمین پر ’قانونی طور پر‘ قیام پذیر 4 لاکھ سے زائد (زیادہ تر غریب) افراد کے لیے انتہائی مشکل کھڑی کی ہوئی ہے وہ ہے اپنے مستقبل کو لے کر ان کی لاعلمی یا پھر ریلوے کو کتنی زمین چاہیے اس حوالے سے بے خبری۔ ریلوے کو مطلوبہ زمین کے حوالے سے ٹھوس فیصلے لینا نہایت ضروری ہیں تاکہ لوگوں کو اس خوفزدہ صورتحال سے نکالا جاسکے۔
ریلوے کی وہ زمین جہاں بے ضابطہ آبادیوں میں تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں اور جو آبادی کے تقریباً 25 فیصد حصے کے لیے روزگار کا ذریعہ بنی ہوئی ہے، اس کو گرانے کا عمل روک دینا چاہیے اور اسے بڑے (rehabilitation) آباد کاری پلان کا حصہ بنا دینا چاہیے۔ متاثرین کو ان کی موجودہ رہائشی علاقوں سے نزدیک ہی کسی دوسری جگہ پر آباد کیا جائے اور اسے ایک بڑے تجارتی منصوبوں کا حصہ بنایا جاسکتا ہے، یوں حکومت کے لیے اچھا خاصا ریونیو بھی پیدا ہوسکے گا ساتھ ہی ساتھ متاثرین کے لیے رہائش بھی فراہم ہوسکے گی۔
کراچی بحالی پلان وہ واحد راستہ ہے جسے شہر کی اس وقتی پیداوار کو مستقبل کی خاطر لائے گئے موجودہ پلان سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔ یہ کام مشکل ٹائم فریمز یا مصالحتی افراد پر مشتمل کمیٹیوں کو تشکیل دینے یا پھر غیر تجربہ کار مشیروں کی تعیناتی سے انجام نہیں دیا جاسکتا۔ بلکہ اس کام کے لیے 5 سے 10 سال کے ٹائم فریمز اور منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے لیے بااثر ادارے درکار ہیں۔ یہ ادارے وجود نہیں رکھتے لیکن انہیں وجود میں لانے اور انہیں تربیت دینے کی ضرورت ہے۔
دوسری طرف چھوٹے چھوٹے منصوبوں سے شہر کو تھوڑا بہت وقتی ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ اگر کراچی کو منجھدار سے نکالنا ہے اور قائم و دائم رکھنا ہے تو غصے کو احترام اور فہم میں بدلنا ہوگا۔
یہ مضمون 31 جنوری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (6) بند ہیں