شمالی بھارت میں نچلی ذات کی جماعتوں کا بی جے پی کی شکست کے لیے اتحاد
بھارت کی گنجان آباد ریاست اترپردیش میں سیاسی حریفوں نے مشترکہ ریلی کا اہتمام کرتے ہوئے ووٹرز سے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمراں جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کو شکست دینے کے لیے نئے اتحاد کی حمایت کی اپیل کردی۔
خبرایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ہندووں کی نچلی ذات اور مسلمان اقلیتوں کا تعاون رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اتر پردیش میں بی ایس پی کے صدر مایاوتی کی سربراہی میں اتحادی جماعتیں انتخابات میں حصہ لیں گی۔
مایاوتی نے سہارنپور میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اس الیکشن سے بی جے پی کی اصلیت سامنے آئے گی کیونکہ وزیر اعظم نچلی ذات، غریب اور بے روزگار افراد سے کیے گئے اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارت: 600 سے زائد فنکاروں کی عوام سے'بی جے پی' کو ووٹ نہ دینے کی درخواست
ان کا کہنا تھا کہ ’نریندر مودی کا رپورٹ کارڈ بہت خراب ہے، انہوں نے اپنے 5 سالہ دور اقتدار میں امیروں کو مزید امیر ہونے میں مدد کی ہے اور جب انہیں احساس ہوا کہ وہ کام کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں تو انہوں نے ووٹ حاصل کرنے کے لیے پلوامہ حملے کا سہارا لیا۔
خیال رہے کہ 14 فروری کو مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی پیراملٹری فورس پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں بھارتی فوج کے 40 کے قریب جوان ہلاک ہوئے تھے اور اس حملے سے پاک-بھارت کشیدگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا تھا۔
اتحادی جماعت کی ریلی میں مایاوتی نے غریب اور نچلی ذات کی عوام کے لیے سرکاری نوکریوں میں کوٹہ مخصوص کرنے کا وعدہ کیا جبکہ مسلمانوں کو اتحادی امیدواروں کو ووٹ دینے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم ہی اقلیتی برادری کے تحفظ کا واحد حل ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: بغیر نگران حکومت بھارت میں شفاف انتخابات کیسے ہوجاتے ہیں؟
مایاوتی کا کہنا تھا کہ ’مجھ پر یقین کریں، بی جے پی اب جارہی ہے اور یہ اتحاد اگلی حکومت کا حصہ ہوگا‘۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اتحاد رواں ہفتے سے شروع ہونے والے 5 ہفتوں پر مشتمل انتخابات بی جے پی کے لیے بڑا امتحان ثابت ہوں گے۔
گری انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اسٹڈیز کے محقق نومیتا پی کمار کا کہنا تھا کہ ’بھارت میں ذاتی تفریق پر پابندی ہے تاہم انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال اب بھی جاری ہے‘۔
خیال رہے کہ اتر پردیش میں مجموعی آبادی کا 22 فیصد حصہ نچلی ذات، 45 فیصد پسماندہ اور 19 فیصد مسلمان آباد ہیں جبکہ دیگر صرف 14 فیصد اعلیٰ ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔