فلسطین نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اسرائیل، امریکا کو خبردار کردیا
فلسطینی اتھارٹی (پی اے) نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے لیے امن منصوبہ لانے کے اعلان پر خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی نہ کریں جس کو ہمارے عوام قبول نہیں کریں گے۔
خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو رودینہ کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ سے کوئی رابطہ نہیں ہے، فلسطینی عوام اور قیادت کی منظوری کے بغیر کسی امن معاہدے کو نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اگر وہ سنجیدہ ہیں اور پورے خطے میں استحکام چاہتے ہیں تو یہ واحد راستہ ہے’۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ان کے بڑے حریف سابق جنرل بینی گینٹز کو اگلے ہفتے وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا ہے۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ نیتن یاہو سے ملاقات کے دوران امن منصوبے کی تفصیلات سے آگاہ کریں گے۔
ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں شرکت کے بعد واپسی پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے تسلیم کیا تھا کہ فلسطینی اس منصوبے پر ابتدائی طور پر منفی ردعمل دے سکتے ہیں لیکن یہ حقیقت میں ان کے لیے مثبت ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے فوری طور پر ٹرمپ کی دعوت کو قبول کرلیا اور کہا کہ ‘یہ ایک عظیم منصوبہ ہے، یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو حقیقی معنوں میں کارآمد ہوگا’۔
ادھر غزہ پٹی میں حکمران جماعت حماس کے ترجمان فوضی بارہوم کا کہنا تھا کہ امریکا عملی طور پر حقیقت کو تبدیل کرسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمارے لوگ اس کو قبول نہیں کریں گے اور اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس کا مقابلہ کریں گے’۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان امن مذاکرات 2014 میں ختم ہوگئے تھے جبکہ فلسطین نے ٹرمپ کی جانب سے امن منصوبے کو پیش کیے جانے سے قبل ہی مسترد کردیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا کا فلسطینی مہاجرین پروگرام کو غیر فعال کرنے کا مطالبہ
ٹرمپ کے منصوبے کے حوالے سے فلسطینی قیادت کا موقف تھا کہ چونکہ امریکی صدر کی پالیسیاں اسرائیل نواز ہیں اس لیے ان کا معاہدہ قابل قبول نہیں ہوگا اور اس کے ساتھ ٹرمپ انتظامیہ سے سیاسی ملاقاتوں کا بھی بائیکاٹ کردیا تھا۔
فلسطین نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کو مسترد کردیا تھا جس کی حمایت عالمی سطح پر دیگر ممالک نے بھی کیا تھا۔
فلسطین اور عالمی برادری اسرائیلی آبادیوں کو جنیوا کنونشن 1949 کے تحت غیرقانونی قرار دیتا ہے جو جنگ کے دوران قبضے میں لی گئی زمین سے متعلق ہے جبکہ اسرائیل بیت المقدس کو اپنا مرکز قرار دیتا ہے۔
امریکی صدر نے 6 دسمبر 2017 کو مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'کچھ امریکی صدور نے کہا کہ ان میں سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کی ہمت نہیں لیکن بیت المقدس کو دارالحکومت تسلیم کرنے کا وقت آگیا ہے'۔
امریکی صدر نے اپنے متنازع فیصلے کے اعلان کے دوران کہا تھا کہ یقین دلاتا ہوں کہ علاقے میں امن وسلامتی کے لیے کاوشیں جاری رہیں گی۔
انہوں نے کہا تھا کہ مشرق وسطیٰ کا مستقبل روشن اور شاندار ہے اور امن کے لیے مسلمانوں، یہودیوں اور عیسائیوں کو متحد ہونا پڑے گا۔
اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ ایک حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے' جس کو کر گزرنا تھا اور یہ امریکا کے بہترین مفاد میں ہے۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے بیت المقدس کی جغرافیائی اور سیاسی سرحدوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا جو تاحال اسرائیل اور فلسطین سے جڑی رہے گی۔