مسلمانوں کے قتلِ عام پر پہلے گجرات پولیس تماشائی تھی اب دہلی پولیس
ڈونلڈ ٹرمپ جتنا شکر ادا کریں کم ہے کہ انہیں بُلٹ پروف جیکٹ پہننی پڑتی ہے، اگر ایسا نہیں ہوتا تو اب تک بھارتی وزیرِاعظم ان سے گلے مِل مِل کر ان کی پسلیاں ضرور توڑ چکے ہوتے۔
نریندر مودی ٹرمپ کو شاید اس لیے کَس کے اپنی باہوں میں گھیرتے ہیں کہ سب کو دکھا سکیں کہ وہ امریکی صدر سے کس قدر قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ مگر امریکی سربراہ کے چہرے کے تاثرات یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ ’خدارا اس شخص کو مجھ سے دُور لے جاؤ!‘
اب چونکہ میں نے یہ کہنے کی جرأت کرلی ہے کہ بھارتی وزیرِاعظم بعض اوقات مسخرے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں اس لیے میں جانتا ہوں کہ بھارتی قارئین مجھ پر تنقید کے نشتر چلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے، مگر انہیں حقیقت کا سامنا تو کرنا ہی ہوگا۔
15 روز قبل جب میں نے بھارت میں بڑھتی پُرتشدد قوم پرستی پر تنقیدی مضمون لکھا تو مجھے بھارتیوں کی جانب سے اپنے ملک کے دفاع میں ڈھیروں سخت برہم و رنجیدہ ای میلز موصول ہونا شروع ہوگئیں۔ ایک بھارتی قاری نے مجھ سے یہ سوال پوچھنے کی بھی ہمت جٹا لی کہ مجھے کس نے یہ حق دیا ہے کہ میں بھارت کے بارے میں کچھ بھی لکھوں؟ میں نے جواب دیا کہ میں کسی بھی موضوع پر تحریر لکھنے کے لیے خود کو آزاد تصور کرتا ہوں اور اس کے لیے مجھے آپ کی اجازت درکار نہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بھارتی ضرورت سے زیادہ ہی حساس ہوگئے ہیں اور ان کے رویوں میں پہلے سے زیادہ جارحیت اتر آئی ہے۔ چند سال قبل دہلی میں مقیم اکنامسٹ کے نامہ نگار سے ملاقات ہوئی جو ہمارے عام انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں لاہور آئے ہوئے تھے۔ جب میں نے ان سے بھارت اور پاکستان کی کوریج کا موازنہ کرنے کو کہا تو انہوں نے جواب دیا کہ ’میں بھارت کے بارے میں جب بھی کوئی منفی تحریر لکھتا ہوں تو جن جن بھارتیوں کو میں جانتا ہوں وہ اس پر شدید غصہ ہوجاتے ہیں۔ لیکن جب میں پاکستان پر کوئی تنقیدی تحریر لکھتا ہوں تو یہاں کے سارے دوست میری بات سے اتفاق کر رہے ہوتے ہیں‘۔
آخر بھارتی اپنے اندر تنقید کو برداشت کرنے کا مادہ کیوں نہیں رکھتے؟ وہ مذاق کو محض مذاق کیوں نہیں سمجھتے؟ مجھے لگتا ہے کہ ان کے اس رویے کا تعلق مسلمانوں اور برطانویوں کی ہندوستان پر ہزار سالہ حکمرانی سے ہے، جبکہ آزادی تو انہیں تقریباً 7 دہائیوں پہلے ملی ہے۔ اسی وجہ سے انہیں تنقید سخت ناگوار گزرتی ہے جبکہ مرکزی دھارے میں گھولے جانے والے ہندتوا کے زہر نے معاملات کو مزید بدتر کردیا ہے۔
چند برس قبل جب میں نے ایک مضمون میں پاکستان پر تنقید کی، جو میں اکثر و بیشتر کرتا رہتا ہوں، تو بھارتی قارئین نے بڑے ہی گرم جوش پیغامات بھیجے جن میں انہوں نے لکھا کہ انہیں لگتا تھا کہ پاکستان میں میرے مضامین جیسی تحاریر لکھنے کی اجازت بھی ہوتی ہوگی۔ مگر میں نے جب جب اپنے مضامین میں بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا تب تب مجھے بھارت سے شکوؤں سے بھرپور ڈھیروں پیغامات موصول ہوئے۔
ان دنوں ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح دہلی کے ضلع موجپور میں بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے غنڈے مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتلِ عام کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں پولیس کی پوری پوری معاونت اور پشت پناہی رہی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے ایک کیمرا مین نے بتایا کہ کس طرح آر ایس ایس کے بدمعاش لڑکوں نے کئی بار انہیں روک کر پوچھا کہ آیا وہ ہندو ہے یا مسلمان۔ وہ شخص ختنہ شدہ ہے یا نہیں، اس بات کی تسلی کرنے کے لیے ایک غنڈے نے اسے پتلون اتارنے کے لیے دھمکایا۔ تادمِ تحریر فرقہ وارانہ فسادات میں 30 سے زائد افراد مارے جاچکے ہیں۔
مگر موجپور کے فسادات سے پہلے ہم نے ان خواتین کی قیادت میں شاہین باغ میں ہونے والا دھرنا دیکھا جنہوں نے پہلے کبھی کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا تھا۔ عرفان اللہ فاروقی ممبئی سے شائع ہونے والے سخت مؤقف رکھنے والے جریدے Economic and Political Weekly میں اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ،
’شاہین باغ کے مقام پر احتجاج کا ایک بالکل مختلف انداز صرف اس لیے اپنایا گیا ہے کیونکہ ایک مظاہرہ کار اپنی یکجہتی کے بارے میں ایک بڑا ہی مختلف تصور رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس احتجاج میں ایک طرف 90 سالہ عمر رسیدہ خاتون بیٹھی ہے اور دوسری طرف کسی کی گود میں 20 دنوں کا بچہ ہے، لہٰذا یہ احتجاجی مظاہرہ احتجاج کی ایک نئی گرامر اور مزاحمت کی ایک نئی زبان سکھلاتا ہے۔‘
مودی کو آر ایس ایس، بی جے پی، ہندتوا کے حامیوں سے حاصل ہونے والی زبردست مدد کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی سربراہی میں بھارت کا مستقبل طے ہوچکا ہے۔ جس طرح گجرات پولیس کو اپنے سامنے ہو رہے مسلمانوں کے قتلِ عام میں مداخلت سے منع کیا گیا تھا ٹھیک ویسے ہی حالیہ دنوں جب بی جے پی کے غنڈے مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے اور مساجد کو نقصان پہنچا رہے تھے تب دہلی پولیس خاموش کھڑی اس ساری بربریت کو دیکھتی رہی۔
شکر ہے کہ متعدد مہذب بھارتی ہندو و مسلمان ہندتوا کے ظلم و بربریت کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ مگر بھارتی ریاست کی طاقت کو دیکھا جائے تو مجھے نہیں لگتا کہ یہ لوگ اپنے مقصد میں کچھ زیادہ کامیاب ہوپائیں گے۔
کیا دنیا اس قتلِ عام کو روکنے کے لیے آگے بڑھے گی؟ مجھے تو نہیں لگتا۔
جب موجپور میں لوگ مارے جارہے تھے اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ مودی سے بات چیت میں مصروف تھے۔ مودی کی سرزنش کرنے کے بجائے ٹرمپ نے بھارت کو 3 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کیا۔ اسی طرح دیگر مغربی ممالک بھی بھارت کے سائز اور اس کی طاقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس پر تنقید سے گریز کرتے ہیں۔
اگر پاکستان نے اپنی اقلیتوں کے ساتھ اسی طرح کا ظلم ڈھایا ہوتا تو پوری دنیا میں قیامت برپا ہوجاتی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہم اپنے غیر مسلم شہریوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک روا رکھتے ہیں لیکن آج دہلی میں جس بڑے پیمانے پر سفاکانہ قتلِ عام ہو رہا ہے ایسا شاید ہی کبھی ہوا ہو۔
چنانچہ میں بھارتی قارئین سے یہ درخواست کروں گا کہ مجھے بے ہودہ ای میلز بھیجنا چھوڑ دیں تو اچھا ہے کیونکہ اب میں ’ڈیلیٹ‘ کا بٹن استعمال کرنے کا سوچ رہا ہوں۔
یہ مضمون 29 فروری 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں