افغانستان میں حالیہ حملوں نے امن عمل پر سوالات کھڑے کردیے ہیں، زلمے خلیل زاد
امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے امن عمل زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ افغانستان میں حالیہ حملوں نے امن عمل سے متعلق سوالات کھڑے کر دیے ہیں لیکن چیلنجز کے باوجود ہم بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ میں ویڈیو لنک کے ذریعے بریفنگ کے دوران زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'امن کا راستہ سیدھا نہیں ہے اور اس کی راہ میں کئی چیلنجز اور مشکلات حائل ہیں، ہم یہ پہلے سے جانتے ہیں لیکن امن کی طرف بڑھنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'افغانستان اور عالمی سطح پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ افغانستان کی جنگ کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، اس کا حل سیاسی ہے اور موجودہ وقت میں افغانوں کے درمیان امن معاہدہ ہی اس کا حقیقی حل ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم امریکا کے کندھے سے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے بھی سیاسی تصفیہ چاہتے ہیں اور اس بات کو بھی یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کبھی بھی امریکا یا اس کے اتحادیوں پر حملے کے لیے استعمال نہ ہو، اس سلسلے میں امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے نے آگے بڑھنے کے لیے تاریخی موقع فراہم کیا ہے لیکن حالیہ حملوں نے امن عمل سے متعلق سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: افغانستان: میٹرنٹی ہوم اور جنازے میں حملوں سے 37 افراد ہلاک
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ 'چیلنجز کے باوجود ہم بہت محنت سے کام کر رہے ہیں، ہم نے تمام فریقین پر کشیدگی کم کرنے پر زور دیا ہے، ہم نے افغانوں پر زور دیا ہے کہ وہ آئیں اور اس تاریخی موقع سے فائدہ اٹھائیں، جبکہ صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ پر زور دیا ہے کہ وہ مشترکہ حکومت کے لیے کسی سیاسی معاہدے پر پہنچیں۔
انہوں نے کہا کہ 'افغان حکومت، طالبان کے ایک ہزار سے زائد اور طالبان، افغان حکومت کے 253 قیدیوں کو رہا کر چکے ہیں لیکن ہم نے ان پر مزید قیدیوں کی رہائی کے لیے زور دیا ہے، ہم جلد از جلد بین الافغان مذاکرات کا آغاز چاہتے ہیں کیونکہ یہی افغانوں کے درمیان دیرپا امن کا واحد راستہ ہے۔'
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا طالبان کی جانب سے انسداد دہشت گردی کے عزم پر کاربند رہنے پر منحصر ہے۔
افغانستان کے ہسپتال میں حالیہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے امریکی نمائندہ خصوصی نے کہا کہ 'ہمارا ماننا ہے کہ ہسپتال اور جنازے پر حالیہ حملے داعش نے کیے جو امن کی دشمن ہے اس لیے ہم طالبان اور افغان حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ وہ داعش کے خلاف ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔'
مزید پڑھیں: افغانستان میں کشیدگی میں اضافہ، امن عمل خطرات سے دوچار
امریکا ۔ طالبان معاہدہ
یاد رہے کہ طالبان اور امریکا نے 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکا نے فوجیوں کی واپسی کی یقین دہانی کروائی تھی۔
چار صفحات پر مشتمل معاہدے میں کہا گیا تھا کہ طالبان، افغانستان کی سرزمین کسی بھی ایسی تنظیم، گروہ یا انفرادی شخص کو استعمال کرنے نہیں دیں گے جس سے امریکا یا اس کے اتحادیوں کو خطرہ ہوگا۔
امریکا نے وعدہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کا انخلا یقینی بنایا جائے گا۔
طالبان نے کہا تھا کہ وہ 10 مارچ 2020 سے بین الافغان مذاکرات کا عمل شروع کریں گے، بین الافغان مذاکرات کے بعد افغانستان میں سیاسی عمل سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
معاہدے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس کے پہلے دو حصوں کی تکمیل بنیادی طور پر اگلے دو حصوں کی کامیابی سے مشروط ہے۔
معاہدے کے تحت امریکا اور طالبان نے اتفاق کیا تھا کہ 'اعتماد سازی' کے لیے ہزاروں قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا اور کہا گیا تھا کہ '10 مارچ تک طالبان کے تقریباً 5 ہزار اور افغان فورسز کے ایک ہزار قیدی رہا کیے جائیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں داعش جنوبی ایشیا کے سربراہ سمیت 3 خطرناک دہشت گرد گرفتار
بعد ازاں اپریل میں قیدیوں کی رہائی کا سلسلہ شروع ہوا اور سیکڑوں طالبان قیدیوں کو رہا کردیا گیا اور طالبان نے فورسز کے قیدیوں کو آزاد کیا تاہم اس معاملے پر طالبان اور افغان حکومت کے درمیان تنازع بنتا رہا۔
طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی رہائی تک کشیدگی کو کم کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور اس وقت تک مذاکرات بھی نہیں ہوں گے۔
طالبان رہنما کا کہنا تھا کہ 'اشرف غنی کی حکومت ہمارے اعصاب کو آزمانا چاہتی ہے لیکن ہم انہیں کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہم تھکے نہیں ہیں، ہم اب بھی تازہ دم اور لڑنے کے لیے تیار ہیں'۔
معاہدے پر دستخط کے بعد سے اب تک طالبان ساڑھے 4 ہزار سے زائد حملے کر چکے ہیں اور اس میں سب سے زیادہ وہ صوبے متاثرہ ہوئے ہیں جہاں اب تک کورونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔