امریکا نے ایرانی وزیر داخلہ سمیت 7 اہم عہدیداروں پر پابندی لگادی
امریکا نے ایران کے وزیر داخلہ عبدالرضا رحمانی فضلی پر ’سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی‘ کا الزام لگا کر پابندی عائد کردی۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے پاسداران انقلاب ایران (آئی آر جی سی) کے صوبائی کمانڈر اور لا انفورسمنٹ فورس (ایل ای ایف) کے اعلیٰ عہدیداروں سمیت 7 افراد پر بھی پابندی لگادی۔
مزید پڑھیں: کابل کا ایران پر افغان مہاجرین کو دریا برد کرنے کا الزام
امریکی حکام نے الزام لگایا کہ متعدد ایرانی کمپنیاں ’توانائی، تعمیرات، ٹیکنالوجی، سروسز اور بینکنگ انڈسٹری میں ملوث ہیں۔
امریکی سیکریٹری خزانہ اسٹیون میوچن نے کہا کہ ایرانی حکومت جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں کے ذریعے ایرانی عوام کے پرامن احتجاج پر پرتشدد دباؤ ڈالتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا ان تمام عہدیداروں اور ان اداروں کا محاسبہ کرے گا جو اپنے ہی لوگوں پر ظلم اور زیادتی کرتے ہیں۔
اسٹیون میوچن نے کہا کہ ایران کے قانون نافذ کرنے والے فوجی دستوں نے ’مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن میں اہم کردار ادا کیا اور جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں سے وابستہ حراستی مراکز چلاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا نے ایران کے 8 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی کا اعلان کردیا
انہوں نے کہا کہ ایل ای ایف نے ایران میں افغان تارکین وطن کے خلاف کارروائی کی اور اور انہیں جلاوطن کے مراکز بھیج دیا ہے جہاں اطلاعات کے مطابق آئی آر جی سی نے شام میں ایرانی ملیشیا کے لیے لڑنے پر مجبور کیا۔
اسٹیون میوچن نے کہا کہ رواں برس مئی میں ایل ای ایف نے افغان شہریوں پر تشدد کیا اور انہیں زبردستی دریا میں دھکیل دیا۔
امریکی ٹریژری نے ایل ای ایف اور آئی آر جی سی کے خلاف 9 جون 2011 سے پابندیوں کا ذکر کیا۔
انہوں نے کہا کہ مذکور دونوں ادارے جون 2009 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد سے ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں ملوث ہیں۔
رپورٹ میں شام میں آئی آر جی سی کی مداخلت کا بھی ذکر کیا گیا۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ کا ایران کے جوہری معاہدے سے دستبرداری کا اعلان
واضح رہے افغانستان کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا تھا کہ ایران کے سرحدی محافظوں کے ہاتھوں تشدد زدہ 18 افغان تارکین وطن کی لاشیں برآمد کرلیں۔
افغان عہدیدار نے الزام لگایا تھا کہ گزشتہ ہفتے مذکورہ افغان باشندوں کو ایرانی سرحد کے محافظوں نے دریا میں دھکیلنے سے قبل بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
اس سے قبل جنوری میں امریکا نے خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزام میں ایران کے 8 اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا تھا۔
امریکی محکمہ خزانہ کے سیکریٹری نے وائٹ ہاؤس میں بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا تھا 8 اعلیٰ عہدیداروں پر پابندی کے ساتھ ایران میں کان کنی اور دھاتوں کی پیداوار کی ایک درجن سے زائد کمپنیوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی ڈرون حملے میں ایران کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوگئے تھے۔
جنرل قاسم سلیمانی کی حملے میں ہلاکت کے بعد تہران نے امریکا کو سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
مزیدپڑھیں: ایران: تیل کی قیمت بڑھانے پر احتجاج کے دوران پولیس اہلکار، شہری ہلاک
ایران نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے جواب میں بدھ کو عراق میں امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے 2 فوجی اڈوں پر 15 بیلسٹک میزائل داغے۔
علاوہ ازیں امریکا کے محکمہ خزانہ کے مطابق ایرانی وزیر محمد جواد آذری جہرمی نے عہدے پر رہتے ہوئے ایران کی 'جارحانہ انٹرنیٹ سینسرشپ کی پالیسی کو بڑھادیا ہے'۔
گزشتہ برس 21 ستمبر امریکا نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر حملوں کا ذمہ داری براہ راست ایران پر عائد کرتے ہوئے ایران کے مرکزی بینک، نیشنل ڈیولپمنٹ فنڈ اور مالیاتی کمپنی اعتماد تجارت پارس پر پابندی لگانے کا اعلان کردیا تھا۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔