کورونا کا شکار ہونے والے مریضوں کے تجربات جانیے اور محفوظ رہیے
کورونا اب فسانہ نہیں رہا، بلکہ ہر گھر کی دہلیز پر عجب خوف کا ڈیرہ ہے۔ اب یہ اٹلی یا اسپین کی نہیں میرے گھر کی کہانی ہے۔ کورونا کے وجود سے یکسر انکاری لوگ بھی اب رائے بدل رہے ہیں۔ پہلے اس مرض میں مبتلا افراد کو ڈھونڈنا پڑتا تھا مگر اب تو جان پہچان کے کئی لوگ اس مرض میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
میں خود بھی 28 روز تک کورونا کی قید میں جکڑا رہا۔ بے یقینی کی کیفیت نے یقین کو بار بار توڑنے کی کوشش کی لیکن شاید قدرت اور پیاروں کی دعاؤں نے سرخرو کیا۔ میں اب عام زندگی گزارنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
کورونا سے صحتیابی کے بعد اپنے تجربات بانٹنے کا کام صرف اس لیے شروع کیا کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ یہ بھی صدقہ جاریہ ہے۔ اگر لکھنے اور بولنے کی صلاحیت مجھے عطا کی گئی ہے تو مزید لوگوں کو پریشانی اور غیر یقینی سے کسی حد تک محفوظ رکھنے کی کوشش کرنا میرا اوّلین فرض ہے۔
میرے ساتھ اب فون پر کورونا کے متعدد مریض رابطے میں ہیں۔ ان میں زیادہ تر میرے جاننے والے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جو فیس بک کے ذریعے منسلک ہوئے۔
کورونا سے متاثرہ افراد کی مدد اور مرض سے لڑنے کی حوصلہ افزائی کے دوران لوگوں کے ذاتی حالات اور مرض کی سنگینی کے مختلف زاویے دیکھنے کا موقع ملا۔ تمام تجربات لوگوں سے شیئر کرنا اس لیے ضروری محسوس ہوتا ہے کہ غلط فہمی کو درست معلومات میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ لوگوں کو حوصلہ بھی مل سکے کہ زندگی کی روشنی موت کے اندھیروں سے زیادہ طاقتور ہے۔ مجھے امید ہے کہ کورونا متاثرین کی کہانی آپ کو نہ صرف خوف سے نجات دلائے گی بلکہ ممکنہ علامات کے حوالے سے آگاہی بڑھانے کا سبب بھی ہوگی۔
کورونا متاثرین کی رہنمائی کے دوران جناح ہسپتال کراچی سے ادویات کے ماہر ڈاکٹر اور ینگ ڈاکٹرز سندھ کے صدر عمر سلطان، چلڈرن ہسپتال کراچی سے ماہر امراضِ خون اور اطفال ڈاکٹر ثاقب انصاری، کلثوم ہسپتال اسلام آباد سے ماہر امراضِ خون برگیڈیئر (ر) ڈاکٹر نادر علی کا تعاون رہا۔
دن ہو یا رات مذکورہ ڈاکٹر حضرات نے پیشانی پر شکن لائے بغیر پہلے 28 دن میرے طبّی مسائل اور پھر میرے ذریعے بیسیوں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی مدد بھی کی اور جہاں ضروری سمجھا فون پر رہنمائی بھی کی۔ اس دوران ڈاکٹر عمر سلطان کے والد اور بھائی بھی کورونا سے بیمار ہوگئے، اور اس حوالے سے افسوسناک خبر یہ کہ ڈاکٹر عمر سلطان کے والد اس مرض کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور اس دنیا سے کوچ کرگئے۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر عمر والد کی دیکھ بھال کے دوران ہی کورونا کا شکار ہوئے تھے کہ والد کی دلجوئی کے لیے ان کے ساتھ ہسپتال میں داخل ہوگئے تھے۔ کورونا متاثرین کی بیماری کی کیفیت کی تفصیل سے پہلے کچھ پہلو گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔
اس وقت کراچی کے ہسپتالوں میں کورونا وارڈز بھر چکے ہیں، سرکاری ہو یا غیر سرکاری ہسپتال، ہر ایک یہی اعلان کر رہا ہے کہ 'مزید جگہ نا ہونے کی وجہ سے نئے مریضوں سے معذرت ہے'۔
وہ رات بھول سکتی ہے بھلا جب ڈاکٹر عمر سلطان اپنے والد کے لیے پہلے آکسیجن سیلنڈر کی تلاش کرتے رہے اور چند ہی گھنٹوں بعد وہ اپنے والد کے لیے ہسپتال میں بیڈ ڈھونڈ رہے تھے۔
پھر 2 ہی روز بعد قریبی دوست اور صحت کے معاملات پر رپورٹنگ کرنے والے حامد الرحمٰن نے بے بسی سے فیس بک پر لکھا کہ 'آزمائش، دعاؤں کی درخواست ہے' کیونکہ حامد الرحمٰن کے قریبی عزیز کورونا کے سبب آکسیجن کی کمی کا شکار ہیں اور ہسپتال جانا چاہتے ہیں لیکن کہیں پر بھی جگہ نہیں مل رہی ہے۔ حامد کے اپنے بچے اور والدہ بھی بیمار ہیں۔ جن افراد نے اپنے ساتھیوں کی مدد کرنا تھی وہ خود مدد کے منتظر ہیں۔
تمام کورونا متاثرین کے مرض سے پہلے کے طبّی حالات بھی یہاں لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کے لیے علامات کا موازنہ کرنا آسان ہوجائے۔ مزید یہ کہ ڈان ڈاٹ کام کی ایک خبر کے مطابق مخصوص بلڈ گروپ کے حامل افراد کا کورونا سے زیادہ متاثر ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اس لیے مذکورہ ذیل افراد کے بلڈ گروپ کو بھی ساتھ ساتھ لکھا گیا ہے۔
نوٹ: زیادہ تر کورونا متاثرین کے نام حقیقی ہیں جبکہ چند کے نام تبدیل کردیے گئے ہیں۔
پہلے تذکرہ ان افراد کا جو صحتیاب ہوچکے
فضل محمود (صحافی)
56 سالہ فضل محمود کو کورونا سے قبل کوئی خاص مرض نہیں تھا لیکن وزن زیادہ ہے۔ وہ نیو نیوز کی اسائمنٹ ڈیسک کے انچارج ہیں۔ بلڈ گروپ بی پازیٹو ہے۔
فضل صاحب نے جب مجھ سے کورونا کی رپورٹ مثبت ہونے کا تذکرہ کیا تھا تو اس دوران میں خود بھی کورونا کا شکار تھا۔ مایوسی اور غنودگی سارا دن سونے پر مجبور کرتی تھی۔ فضل صاحب کی اطلاع کسی دھماکے سے کم نہیں تھی کیونکہ ان کی عمر اس بارڈر لائن کے قریب تھی جس پر موجود افراد کورونا وائرس کے لیے زیادہ آسان شکار بتائے جاتے ہیں۔
فضل صاحب کو کوئی دوائی یا ٹوٹکہ تجویز کرتے ہوئے کچھ خوف سا ہوتا تھا کہ کوئی بھی غلط چیز انہیں نقصان نا پہنچا دے لیکن سب سے اچھی اور اہم بات یہ ہے کہ فضل صاحب بغیر کسی علامت کے صحتیاب ہوگئے اور اب دفتر میں پہلے سے زیادہ قوت سے فرائض کی ادائیگی میں مشغول ہیں۔ فضل صاحب کے اہلِ خانہ بھی کورونا سے بغیر علامت ہی صحتیاب ہوگئے تھے۔
راجہ کامران (صحافی)
راجہ کامران نیو نیوز کے سینئر رپورٹر ہیں۔ ہیپاٹائٹس کا شکار رہ چکے ہیں۔ بلڈ گروپ بی پازیٹو ہے۔ ان کی اور میری بیماری کا عرصہ تقریباً برابر ہی تھا۔ کورونا سے پہلے کسی خاص بیماری میں مبتلا نہیں تھے لیکن وزن کی کچھ زیادتی ہے۔
راجہ کامران نے صرف ایک علامت کا تذکرہ کیا کہ ان کا پیٹ شدید خراب ہے، کورونا کے ٹیسٹ سے پہلے ان کو صرف شک تھا کیونکہ پیٹ کے مسائل ان کو اکثر درپیش رہتے ہیں اور انہیں لگا کہ رمضان میں کسی موقعے پر بداحتیاطی کے باعث پیٹ خراب ہوگیا ہے۔
رات تک راجہ صاحب کو بخار نے بھی آ گھیرا۔ مشورہ ہوا اور انہوں نے جناح ہسپتال سے اپنا ٹیسٹ کرالیا۔ ٹیسٹ کا نتیجہ آنے تک محض گمان کی وجہ سے انہوں نے آئسولیشن اختیار نہیں کی اور پیٹ کا کوئی انفیکشن ہی سمجھتے رہے۔ راجہ صاحب نے یہ بھی بتایا کہ کورونا کا ٹیسٹ انہوں نے صرف اطمینان کے لیے کروایا ہے۔
بہرحال 2 روز بعد راجہ کامران کا ٹیسٹ مثبت آ چکا تھا۔ حکومتِ سندھ کو اطلاع دی گئی اور ان کے ضلعی دفتر صحت سے ٹیم نے گھر کے دیگر افراد کے ٹیسٹ لیے جس میں ان کے 2 بچوں کا ٹیسٹ بھی مثبت آیا۔ اب راجہ صاحب اور ان کے بچے صحتیاب ہوچکے ہیں لیکن کمزوی نے اب بھی ان کا گھیراؤ کر رکھا ہے۔ جب وہ کورونا سے لڑ رہے تھے تب کراچی میں طیارہ حادثہ بھی پیش آیا۔ ایوی ایشن صرف راجہ کامران کی بیٹ ہی نہیں بلکہ ان کا شوق بھی ہے۔
جہاز حادثے پر متعدد مرتبہ راجہ بھائی سے ڈسکشن ہوئی۔ ہم دونوں ہی آئیسولیٹ تھے۔ راجہ بھائی کو اتنے بڑے حادثے کے دکھ کے ساتھ ساتھ یہ دکھ بھی تھا کہ وہ کوریج کے لیے جائے حادثہ پر نہیں جاسکے۔ میں نے محسوس کیا کہ ان کے سانس کی تکلیف سے انکار کے باجود وہ زیادہ دیر بات نہیں کر پا رہے تھے۔ اس کا ثبوت یہ بھی تھا کہ سانس پھولنے کی وجہ سے جہاز حادثے سے متعلق فون پر خبر دینا محال ہو رہا تھا۔
نیاز خان (صحافی)
نیاز خان جی این این میں بطور ہیلتھ رپورٹر کام کررہے ہیں۔ کورونا وائرس کی بیماری کے بعد انہیں ڈی ہائدریشن نے اس قدر متاثر کیا کہ ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ جناح ہسپتال کے کورونا وارڈ میں سہولیات مناسب تھیں لیکن ہسپتال اپنے ساتھ مختلف دردناک کہانیاں ضرور رکھتا ہے جو ڈپریشن کا سبب بنتی ہیں۔ نیاز علی نے بتایا کہ جناح ہسپتال کے کورونا آئیسولیشن وارڈ میں وہ سب سے کم عمر تھے۔ وہ شدید انزائٹی کا بھی شکار رہے۔
ہسپتال میں قیام کے دوران انہوں نے بزرگ مریضوں کی خدمت بھی کی لیکن نیاز بھائی نے انتہائی دکھ سے بتایا کہ بہت سے ایسے مریض جو چلتے پھرتے ہسپتال میں آئے تھے، ان کی ایسی حالت بگڑی کہ دیکھتے ہی دیکھتے اللہ کو پیارے ہوگئے۔
نیاز بھائی کہتے ہیں کہ جب ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا اور ہسپتال سے آزادی ملی اس وقت بھی اس قدر کمزوری تھی کہ پیدل چل کر گیٹ تک جانا مشکل ہو رہا تھا۔ اللہ نے ہمت اور طاقت دی اور آج اپنے صحافتی فرائض دوبارہ انجام دے رہے ہیں۔
جواد حسین (میڈیا کارکن)
جواد حسین نیو نیوز کے ای این جی انچارج ہیں۔ ان کا وزن کافی زیادہ ہے اور بلڈ پریشر کا معمولی مسئلہ بھی درپیش رہتا تھا۔
میں چونکہ خود کورونا کے سبب دفتر سے غیر حاضر تھا اس لیے جواد کی بیماری کا ایک ہفتے بعد معلوم ہوا۔ فون پر آواز ایسی تھی کہ جیسے بات کرنا مشکل ہو۔ پوچھنے پر بتایا کہ سانس لینے میں تکلیف ہے اور ڈاکٹر نے سینے کا انفکشن بتایا ہے۔ یہ سنتے ہی میں نے فوراً ان سے پوچھا کہ بھائی کورونا کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ کہنے لگے نہیں۔
جناب کو سمجھایا کہ کورونا کا ٹیسٹ آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ آپ کے اہل خانہ کی حفاظت کے لیے بھی ضروری ہے کیونکہ آپ تو بیمار ہو ہی چکے ہیں اور علامات کا علاج بھی کروا رہے ہیں۔ خیر جواد نے کورونا کا ٹیسٹ کروایا جو میری حسبِ توقع مثبت آیا۔
اب حوصلے اور تحمل سے کام لینے کا وقت شروع ہوگیا تھا۔ آج جواد حسین الحمدللہ خیریت سے ہیں اور انہوں نے چند روز قبل فون پر بتایا کہ گھر کو ڈیٹول اور بلیچ کے اسپرے سے صاف کرنے کے بعد بچوں کو لینے اپنے سسرال کی طرف جا رہے ہیں۔
کچھ تذکرہ ان لوگوں کا جو کورونا سے اب بھی متاثر ہیں اور آپ کی دعاؤں کے طلب گار ہیں
ڈاکٹر عمر سلطان اور ان کے بھائی
جیسا کہ اوپر بتایا جاچکا کہ ڈاکٹر عمر سلطان کے والد اس بیماری کی وجہ سے انتقال کرچکے ہیں، لیکن وہ اور ان کے بھائی اب بھی اس بیمارے سے لڑ رہے ہیں۔
ان کی خاص بات یہ رہی کہ وہ کورونا کی بیماری کے دوران خندہ پیشانی سے میرے تمام سوالات اور ہر چیز کی تفصیلی وجوہات جاننے کی عادت کو برداشت کرتے رہے تھے مگر اب خود کورونا سے بیمار ہیں۔ کچھ دن پہلے ہی ان کی والدہ عارضہ قلب کے باعث ہسپتال میں طویل قیام کے بعد گھر آئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ عید پر والد محترم سے شاید کچھ بے احتیاطی ہوئی۔ ہلکی پھلکی علامات ظاہر ہوئیں تو فوراً کورونا ٹیسٹ کروالیا۔ جس دن ٹیسٹ مثبت آیا اس وقت ڈاکٹر صاحب گھر سے باہر تھے۔
انہوں نے ذرا بھی وقت ضائع کیے بغیر گھر پر فون کیا اور والد کو آئیسولیٹ ہونے کا کہا اور اپنے بھائی سے رابطے کی کوشش کرتے رہے۔ شدید الجھن میں تھے کہ بھائی گھر سے باہر پھل خریدنے گیا ہے اور فون نہیں اٹھا رہا۔
میں نے ان کے والد کے لیے جب تشویش کا اظہار کیا تو کہنے لگے کہ وہ صحت مند اور مضبوط انسان ہیں اور یہی امید ہے کہ زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اینٹی بائیوٹک کا کورس وہ رپورٹ آنے سے پہلے ہی شروع کروا چکے ہیں جبکہ بھائی آئیسولیشن کے دوران بغیر علامت ظاہر کیے بالکل ٹھیک ہیں۔ ان کے والد کی علامات ظاہر ہونے کے 8 دن بعد ایک شام میں نے عمر بھائی کو اپنے ایک دوست کی خون کی رپورٹ ڈسکس کرنے کے لیے فون کیا تو کہنے لگے کہ یار آکسیجن سیلنڈر کا بندوبست کر رہا ہوں کیونکہ ابو کا آکسیجن لیول اچانک کم ہوگیا ہے۔
میں نے پوچھا آپ کو کیسے معلوم ہوا تو کہنے لگے میرے پاس آگزی میٹر موجود ہے۔ (اب میں کورونا سے متاثر ہر شخص کو یہ میٹر لینے کا مشورہ دیتا ہوں) بہرحال رات کو دوبارہ ایک اور دوست کی کورونا سے بگڑتی صحت سے متعلق مشورہ کرنے کے لیے ڈاکٹر صاحب کو فون کرنا پڑا۔ شدید پریشان آواز نے ایک دم مجھے جیسے جھنجھوڑ دیا ہو۔
ایک ماہر ڈاکٹر اور ینگ ڈاکٹروں کا رہنما پریشان تھا کہ اپنے والد کو کون سے ہسپتال لے کر جائے۔ رات ہوچکی تھی اور آکسیجن سیلنڈر ختم ہو رہا تھا۔ کہنے لگے کہیں سے آکسیجن کا بندوبست کرنا ہے۔ میں نے انہیں حوصلہ دیا اور کہا کہ میں پوری کوشش کرتا ہوں۔ صحافی دوست اور ہر لمحہ مدد کے لیے حاضر رضوان بھٹی بھائی کو فون کیا۔ انہوں نے کہا 10 منٹ دیں، کوشش کرتا ہوں۔
ڈاکٹر عمر نے بتایا کہ ان کے پاس صرف آدھا گھنٹہ ہے جلدی کرلیں۔ وہ بہت ہی پریشان تھے اور میں صرف ان کے لیے ہی نہیں بلکہ جس دوست کی خراب طبعیت کے لیے ڈاکٹر صاحب سے مشورہ کرنا تھا ان کے لیے بھی فکرمند تھا۔ اللہ اجر دے رضوان بھٹی بھائی کو جنہوں نے عالمگیر ویلفیئر اور ایدھی سے آکیسیجن سیلنڈر حاصل کرلیے تھے۔ دفتر کے 2 ملازمین کو نیند سے جگایا اور وہ سیلنڈر لے کر روانہ ہوئے۔
اسی دوران ہی ڈاکٹر عمر سلطان کا فون آیا کہ ابو کی طبعیت زیادہ خراب ہو رہی تھی۔ بڑی مشکل سے ایک ہسپتال میں بستر کا بندوبست ہوا ہے اور اب ایمبولینس میں بس روانہ ہی ہونے لگے ہیں۔
اگلی صبح بات ہوئی تو کافی مطمئن لگے کہ والد کا آکسیجن لیول اب بہتر ہو رہا ہے لیکن افسوسناک خبر یہ تھی کہ اب ڈاکٹر صاحب خود بخار کا شکار تھے اور آئیسولیٹ ہوچکے تھے۔
2 دن بعد فون کیا تو بتایا کہ والد کی بہتر دیکھ بھال اور ان کی بے چینی کو کم کرنے کے لیے خود بھی اسی ہسپتال کے کورونا وارڈ میں داخل ہوچکے ہیں کیونکہ کورونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ وہ اس وقت بھی والد کی طبعیت کے حوالے سے پریشان تھے کیونکہ 2 دن بہتری کے بعد والد کی سانس کی تکلیف دوبارہ بڑھ رہی تھی اور مزید کچھ انجیکشن لگاکر طبعیت سنبھالنے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن پھر 2 دن پہلے خبر ملی کہ ان کے والد اس بیماری کا مزید مقابلہ نہیں کرسکے۔
نصر اللہ ملک (نیوز اینکر)
50 برس سے زائد العمر نصر اللہ ملک نیو نیوز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور پروگرام اینکر ہیں۔ کورونا سے پہلے جگر کا افعال بھی متاثر تھے لیکن ان کا صحت پر کوئی واضح اثر نہیں ہوا تھا۔
ملک صاحب میرے استاد اور باس دونوں ہیں۔ جناب ان لوگوں میں تھے جو کورونا اور اس کے بعد لاک ڈاؤن کو نہ صرف غریب کی موت بلکہ نیو ورلڈ آرڈر اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈا سمجھتے رہے۔ اس ضمن میں حوالے بھی بہت تھے اور دلیل کی کمی بھی نہیں تھی۔ کورونا پر عدم یقین کی وجہ سے احتیاط بھی بس نہ ہونے کے برابر تھی۔
جب مجھے کورونا کے مرض کا سامنا تھا تو اس وقت ملک صاحب مجھے حوصلہ دینے کے ساتھ ساتھ کورونا کو میرے خلاف سازش کرنے پر غائبانہ ڈانٹ بھی پلاتے تھے۔ اس روز جمعہ تھا، فون پر بتانے لگے کہ غیر معمولی تھکاوٹ کا سامنا ہے لیکن پروگرام کرنے اسٹوڈیو جانا مجبوری ہے۔ میں نے تقریباً ضد ہی کی کہ انفراریڈ تھرما میٹر کے بجائے شیشے کے تھرمامیٹر سے بخار چیک کریں۔ پہلے تو شدت سے انکار کرتے رہے اور آخر مان گئے۔ اس دوران اپنے دفتر کے کمرے سے فون کیا کہ اب طبعیت ایک دم بہت ہی زیادہ ڈاؤن محسوس ہو رہی ہے۔ کمزوی کا احساس غالب ہے اور اے سی بھی پسینہ خشک کرنے سے قاصر ہے۔ اس دوران شیشے والا تھرمامیٹر بھی آگیا۔ بخار چیک کیا جو سو ڈگری تھا۔ ہاتھ پاؤں جیسے جل رہے ہوں۔
میری بات وہ کہاں مانتے اس لیے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سربراہ ڈاکٹر جاوید اکرام کو فون کیا جو کچھ ہی دیر میں پروگرام لائیو وتھ نصر اللہ ملک میں مہمان بھی تھے، انہی کی تجویز پر وہ گھر کی طرف روانہ ہوئے اور کمرہ علیحدہ کرلیا۔ لیکن شاید دیر ہوچکی تھی کیونکہ 2 روز بعد ملک صاحب کی اہلیہ اور صاحبزادے نے بھی علامات کی شکایت کی اور ٹیسٹ حسبِ توقع مثبت آیا۔
اگلے دن خود گاڑی چلا کر شوکت خانم کی لیب بھی گئے اور اس سے اگلے روز سی ٹی اسکین بھی کرایا۔ آہستہ آہستہ طبعیت بگڑنے لگی۔ نقاہت اس قدر ہے کہ بستر سے اٹھنا محال ہے۔ عزم و ہمت اب بھی کبھی جوش مارے تو چلنے پھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دوسری جانب جگر کے افعال کی رپورٹ اور خون کا تفصیلی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ اندرونی کیفیت پہلے سے ہی نازک تھی۔ ماہر امراضِ خون یہ کہتے ہیں کہ رپورٹ میں ظاہر کردہ پلیٹلیٹس کی کمی کورونا کے سبب نہیں ہے لیکن کورونا اس کمزور عضو کو مزید کمزور کرسکتا ہے۔
اس دوران ایک صبح شوگر اس قدر کم ہوگئی کے ہوش کھو بیٹھے تھے۔ اللہ نے رحم کیا اور بے ہوش ہوتے ہوتے بھی شکر کا چمچ نگل لیا۔ کچھ دیر میں ہوش آنے کے بعد شوگر چیک کی جو انتہائی نچلی سطح پر تھی۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کورونا آپ کے سب سے کمزور حصے پر وار کرے گا اور گرتی ہوئی دیوار کو گرانے کی کوشش کرے گا۔
محمد عثمان (صحافی) اور خواجہ وحید (میڈیا کارکن)
محمد عثمان نیو نیوز کے ساتھ بطور ڈائریکٹر نیوز اور خواجہ وحید بطور ڈائریکٹر آپریشن منسلک ہیں۔ دونوں صاحبان کا بلڈ گروپ او پازیٹو ہے اور دونوں کی عمر بھی 50 کے قریب ہے اور دونوں ہی وزن کی زیادتی اور بلڈ پریشر کے مرض کا شکار ہیں جبکہ عثمان صاحب کو شوگر بھی ہے۔
نصر اللہ ملک صاحب میں کورونا کی تشخیص کے بعد کیفیت یہ تھی کے ان سے ملنے جلنے والے پریشان تھے۔ مذکورہ دونوں حضرات بھی تشویش کا شکار ضرور تھے لیکن ٹیسٹ سے گھبرا رہے تھے۔ دونوں کے بقول وہ بالکل ٹھیک ہیں مگر جب ٹیسٹ کروایا تو مثبت آیا۔ جو 2 افراد کورونا مرض کے سامنے سب سے زیادہ کمزور سمجھے جا رہے تھے وہ الحمد للہ اب تک بغیر کسی علامت کے اپنے اپنے گھر میں آئیسولیٹ ہیں۔ فون پر جب بھی رابطہ ہو تو معمولی سی کسی تکلیف کے تذکرے کے علاوہ اپنی طبعیت ٹھیک بتاتے ہیں۔
رضوان جرال اور محمود، ایک صاحب پروگرامنگ اور اور دوسرے ڈائریکٹر ٹیکنیکل ہیں۔ رضوان تو کورونا کے آغاز کے ساتھ ہی انتہائی خوفزدہ تھے اور احتیاط میں کوئی کسر بھی نہیں چھوڑی تھی لیکن نصر اللہ ملک صاحب کے ساتھ گھومنا اور محفلیں لگانا ترک نہیں کیا نتیجہ یہ نکلا کہ موصوف کا کورونا ٹیسٹ مثبت آگیا ہے لیکن علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں۔ دوسری جانب محمود معدے کے مختلف مسائل سے پہلے ہی نبرد آزما تھے اور اب نہ صرف پیٹ خراب بلکہ بخار بھی ہے۔ سینے پر دباؤ کی شکایت ہے لیکن ٹوٹکوں سے سکون مل ہی جاتا ہے۔ بلڈ گروپ اے پازیٹو ہے اور فی الحال کورونا کے نچلے درجے کے شکار ہیں۔
رات طویل ہو چلی ہے، داستان اب سمیٹنا ہوگی۔ کورونا سے متاثرہ بہت سے سرکاری افسران کے علاوہ سمندر پار پاکستانی دوست بھی شامل ہیں۔ زیادہ سوال اسی بارے میں پوچھے جاتے ہیں کہ کورونا آئیسولیشن کس طرح گزارنا ہے؟ ٹوٹکے اور ادویات کیا ہوسکتی ہیں؟
زیادہ تر لوگ شاید اپنے ڈاکٹر کی ہدایت سے مطمئن نہیں ہو پاتے ہیں یا پھر اکثر کو ڈاکٹر میسر بھی نہیں۔ ٹیسٹ کب کرایا جائے؟ اس کا بھی کوئی ایسا تسلی بخش جواب میرے پاس نہیں ہے۔ بس یہی تجویز ہے کہ اگر کورونا کے کسی مصدقہ کیس کے ساتھ بہت قریبی رابطہ رہا ہے یا علامات ظاہر ہو رہی ہیں تو ٹیسٹ کروالیں۔ ٹیسٹ آپ کے لیے نہیں بلکہ آپ سے جڑے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوتا ہے۔
رابطوں اور کورونا کے علاج کی اس کوشش کے دوران اس وقت شدید دکھ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب بہت سے لوگ یہ شکایت کریں کہ ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ طاقت کی دوائیاں خرید سکیں۔ بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جو یہ بتاتے اور شکوہ کرتے ہیں کہ ایک ہی کمرے کا گھر ہے اور بہت سے لوگ ساتھ رہتے ہیں۔ ان سے بس یہی کہا جاسکتا ہے کہ کھڑکی کے قریب کسی جگہ کسی کونے کو اپنا مسکن بنائیں، صٖفائی کا خیال رکھیں، برتن الگ کرلیں اور جتنا ہوسکے دیگر افراد سے دُور رہنے کی کوشش کریں۔
حرفِ آخر
کورونا سے صحتیاب ہونے کے بعد لوگوں کے بہت سے سوالات نے گھیر لیا، بہت سے جوابات مجھے بھی معلوم نہیں تھے اس لیے صحتیابی کے بعد اپنے پہلے ٹی وی پروگرام میں جو گھر سے ہی کیا، اس میں بطور مہمان ڈاکٹر ثاقب انصاری کو بلایا۔ یہ وہی ڈاکٹر ہیں جنہوں نے پاکستان میں کورونا کے سب سے پہلے مریض یحییٰ جعفری سے پلازما عطیہ لے کر محفوظ بنایا تھا۔ معلومات اور سہولت کے لیے کچھ باتیں اختتام سے پہلے عرض کیے دیتا ہوں:
سوال تھا کہ کیا پاکستان میں پیسو امیونائزیشن کا منصوبہ ناکام ہوچکا ہے؟ کیونکہ اس وقت تک حیدر آباد کے 7 مریضوں میں پلازما لگایا گیا لیکن صرف 2 جانبر ہوسکے، اسی طرح جناح ہسپتال کراچی میں پلازما تھراپی کے زیادہ تر مریض انتقال ہی کرگئے۔ ڈاکٹر ثاقب کا کہنا تھا کہ ’مسئلہ پلازما تھراپی کی ناکامی کا نہیں بلکہ اس طریقہ علاج کے لیے ضروری ہے کہ تمام متعلقہ ماہر ڈاکٹرز کی ایک ٹیم پلازما لگاتے ہوئے مریض کے ہمراہ موجود ہو۔ مریض کی لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورتحال پر ٹریٹمنٹ کا فیصلہ کرے اور صحتیابی تک مریض کے ساتھ رہے لیکن ہمارے نظامِ صحت کا المیہ ہے کہ ڈاکٹروں کی کمی ہے اور ایسا ممکن نہیں ہو پاتا، اس لیے مریض کی پلازما تھراپی کے بعد صحتیابی کے امکانات کو ہمارا بوسیدہ نظامِ صحت ناکام بنا دیتا ہے‘۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ کہ خدانخواستہ آپ یا آپ کا کوئی پیارا اگر کورونا کا شکار ہوجائے تو اس کا سوشل بائیکاٹ کرنے کے بجائے اس کا خوب خیال اس صورت میں بھی رکھا جاسکتا ہے کہ اس کی دلجوئی کی جائے، حوصلے کو بُلند کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ آپ کا صرف اتنا کام اسے مزید کسی ذہنی دباؤ سے بچا سکتا ہے جو جلد صحتیابی کے لیے ضروری بھی ہے۔