• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

لاہور: 'داغدار' ریکارڈ رکھنے والے 16 ایس ایچ اوز بلیک لسٹ

شائع November 25, 2020
لاہور میں تھانہ کلچر کے خاتمے کے لیے مختلف دیگر ونگز کے 119 سب انسپکٹرز کو ایس ایچ او تعینات کرنے کے لیے فہرست تیار کرلی گئی۔  - فائل فوٹو:پنجاب پولیس فیس بک
لاہور میں تھانہ کلچر کے خاتمے کے لیے مختلف دیگر ونگز کے 119 سب انسپکٹرز کو ایس ایچ او تعینات کرنے کے لیے فہرست تیار کرلی گئی۔ - فائل فوٹو:پنجاب پولیس فیس بک

لاہور: پولیس نے پہلی بار صوبائی دارالحکومت کے 16 اسٹیشن ہاؤس افسران (ایس ایچ اوز) کو 'داغدار' ریکارڈ رکھنے پر بلیک لسٹ کردیا ہے جس کے تحت وہ سٹی پولیس کے تین بڑے ونگز میں ایس ایچ او کی حیثیت سے تعینات نہیں ہوسکیں گے۔

ایک متعلقہ پیشرفت میں صوبائی دارالحکومت میں ’تھانہ کلچر‘ کو بدلنے کے لیے مختلف دیگر ونگز کے 119 سب انسپکٹرز کو نئے ایس ایچ او کے طور پر تعینات کرنے کے لیے فہرست تیار کرلی گئی۔

اس اقدام کا مقصد شہر کے تمام 84 تھانوں کے ایس ایچ اوز کی تبدیلی ہے جو ایک دہائی کے دوران بار بار پوسٹنگ حاصل کر رہے تھے یا (مبینہ طور پر) بدعنوانی، اراضی پر قبضے، منشیات مافیا کی پشت پناہی کرنے اور مجرموں کے گینگ سے روابط رکھے ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: پنجاب: 9 پولیس افسران کی خدمات اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حوالے

کیپٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) عمر شیخ کی ہدایت پر لاہور پولیس میں ایس ایچ او کی حیثیت سے پوسٹنگ حاصل کرنے کا ریکارڈ طلب کیا گیا۔

واضح رہے کہ جرائم کی روک تھام ایک چیلنج بن گیا ہے جس کی وجہ سے ڈکیتی، گاڑی چھیننے اور زمینوں پر قبضے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ جرائم کی شرح میں مستقل اضافہ زیادہ تر 'بدعنوان' ایس ایچ اوز کی (بار بار) تعیناتی کی وجہ سے ہے۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایک پولیس اہلکار جس نے اپنی 15 سالہ خدمات کے دوران شہر کے مختلف تھانوں میں خود کو 20 سے زائد بار ایس ایچ او کی حیثیت سے تعینات کروایا، نے فیصلہ کرنے والوں کو حیران کردیا۔

انہوں نے کہا کہ متعدد مرتبہ بدعنوانی سمیت دیگر الزامات میں ملازمت سے برطرف ہونے کے باوجود پولیس اہلکار خود کو بار بار ایس ایچ او تعینات کرانے میں کامیاب ہوا، وہ اتنا بااثر تھا کہ خود کو دوبارہ اپنے عہدے پر فائز کروالیتا تھا۔

ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ 84 تھانوں کے ایس ایچ اوز کی اکثریت متعدد الزامات میں (انکوائری کے بعد) برطرف، معطل یا تبادلہ کردیے جانے کے باوجود 10 سے زائد بار پوسٹنگ ہوئی۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او کے 'نامناسب رویے' پر لاہور پولیس عدم اطمینان کا شکار

شہر میں اس طرح کے بہت سارے کیسز کا پتا چلنے کے بعد پولیس ڈپارٹمنٹ نے آخرکار 16 ایس ایچ اوز کی ایک فہرست تیار کی۔

انہیں 'بلیک لسٹڈ ایس ایچ اوز' کی کیٹیگری میں ڈالنے کے بعد لاہور سی سی پی او نے ڈی آئی جی آپریشنز کو ہدایت جاری کی کہ وہ ان کی 3 ونگز میں تقرر/تبادلے پر مکمل پابندی لگائیں۔

اسی طرح سی سی پی او نے ڈولفن فورس، سیکیورٹی ڈویژن، انسداد فسادات فورس سمیت مختلف ونگز کے 119 سب انسپکٹرز کا انٹرویو لیا تاکہ ان کی ایس ایچ او کے حیثیت سے تقرر پر غور کیا جاسکے۔

یہ پولیس افسران وہ تھے جن کا کیریئر 'بے داغ' ہے اور انہیں کبھی بھی ایس ایچ او کے عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔

سی سی پی او نے (انٹرویوز کے بعد) پہلے مرحلے میں ان میں سے 30 کو شارٹ لسٹ کیا تاکہ انہیں نیا کام سونپا جاسکے۔

ان میں سے 18 ایس ایچ اوز تقرر کے قابل قرار دیے گئے اور ان کے کیسز لاہور آپریشنز کے ڈی آئی جی اشفاق احمد خان کو بھجوادیے گئے۔

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024