ڈینیئل پرل کیس: حکومت سندھ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر
کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل قتل کیس کے ملزمان کی سزاکالعدم ہونے کے بعد انہیں رہا نہ کرنے پر صوبائی اور جیل حکام کے خلاف توہین عدالت کی دائر درخواست پر نوٹسز جاری کردیے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست گزاروں احمد عمر سعید شیخ، فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل نے اپنے وکلا کے توسط سے یہ مؤقف اپنایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اپریل میں ٹرائل کورٹ کی دی گئی سزا کو کالعدم قرار دے دیا تھا اور گزشتہ ہفتے ہائی کورٹ نے صوبائی حکام کی جانب سے ملزمان کی رہائی روکنے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے کراچی اور سکھر کی سینٹرل جیلوں کے سینئر حکام سے رابطہ کیا کیوں کہ شیخ عادل سکھر جبکہ باقی تین ملزمان کراچی کی سینٹرل جیل میں مقید ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس میں ملزم کو انصاف سے بچ نکلنے کی اجازت نہیں دیں گے، امریکا
انہوں نے کہا کہ جیل حکام کو ملزمان کی رہائی کے لیے عدالتی فیصلے کی نقل فراہم کی گئی لیکن انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کے حکم کی تصدیق پر اصرار کیا، 26 دسمبر کو حکم کی تصدیق بھی فراہم کردی گئی لیکن انہوں نے ملزمان کو رہا کرنے سے انکار کردیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ سینئر جیل عہدیداروں کے مطابق انہیں سندھ کے چیف سیکریٹری اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ کی جانب سے درخواست گزاروں کو رہا نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
وکیل نے دلائل دیے کہ سندھ ہائی کورٹ کا 24 دسمبر کا حکم بھی موجود تھا لیکن فریقین نے جان بوجھ کر اس سے انکار کیا، انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ فریقین کو طلب کر کے ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
چیف جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے انہیں 7 جنوری کو پیش ہونے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی کالعدم قرار، رہائی کا حکم
خیال رہے کہ 24 دسمبر کو سندھ ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ڈینیئل پرل قتل کیس میں رہا ہونے والے چاروں ملزمان کو زیر حراست رکھنے کے لیے صوبائی حکام کے جاری کردہ 'پریوینشن ڈیٹینشن آرڈرز' کو کالعدم قرار دیا تھا۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ ملزمان کو بدستور حراست میں رکھنے کے احکامات بغیر قانونی اختیار کے جاری کیے گئے جو آئین کی متعدد دفعات کی خلاف ورزی ہیں اور ملزمان کے کسی اور کیس میں قید مطلوب نہ ہونے یا سپریم کورٹ سے رہائی کے خلاف کوئی حکم نہ جاری ہونے پر جیل حکام کو انہیں فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
تاہم عدالت نے وفاقی حکام کو ہدایت کی تھی صوبائی حکومت اور مقتول صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست کا فیصلہ ہونے تک ملزمان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں رکھا جائے۔
سپریم کورٹ کا حکم امتناع
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے صوبائی حکومت کو یاددہانی کروائی کہ سپریم کورٹ کی 28 ستمبر کو جاری کردہ ہدایات اب بھی موجود ہیں جن میں مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کی رہائی کے خلاف حکم امتناع جاری کیا گیا تھا۔
اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 29 دسمبر کو حکومت سندھ کو اپنی رائے دیتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے کہا کہ 28 ستمبر کو سپریم کورٹ کے حکم میں مرکزی ملزم کو آئندہ سماعت تک رہا نہ کرنے کے حکم کو عدالت عظمیٰ نے واضح نہیں کیا تھا اور اب تک قابل عمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: سپریم کورٹ نے ملزمان کو رہا کرنے سے روک دیا
مذکورہ رائے حکومت سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ملزمان کی رہائی کے فیصلے کے تناظر میں 28 دسمبر کو طلب کی تھی۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عدالتوں کی ہدایات عموماً اس وقت تک قابل عمل رہتی ہیں جب تک انہیں ختم کرنے کا واضح حکم نہ دے دیا جائے۔
ڈینیئل پرل قتل کیس
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا کے بیورو چیف 38 سالہ ڈینیئل پرل کراچی میں مذہبی انتہا پسندی پر تحقیق کررہے تھے جب انہیں جنوری 2002 میں اغوا کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔
سال 2002 میں امریکی قونصل خانے کو بھجوائی گئی ڈینیئل پرل کو ذبح کرنے کی گرافک ویڈیو کے بعد عمر شیخ اور دیگر ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ملزم احمد عمر سعید شیخ المعروف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ شریک ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو مقتول صحافی کے اغوا کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔
بعد ازاں حیدر آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے شیخ عمر اور دیگر ملزمان کو اغوا اور قتل کا مرتکب ہونے پر سزا ملنے کے بعد ملزمان نے 2002 میں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ڈینیئل پرل کیس: ملزمان کی رہائی کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا مسترد
ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے ریکارڈ کا جائزہ لینے، دلائل سننے کے بعد ملزمان کی 18 سال سے زیر التوا اور حکومت کی جانب سے سزا میں اضافے کی اپیلوں پر سماعت کی تھی اور مارچ میں فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 2 اپریل کو سنایا گیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد قتل کے مقدمے میں 4 ملزمان کی انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے سزا کے خلاف دائر اپیلوں پر فیصلہ سناتے ہوئے 3 کی اپیلیں منظور کرلی تھیں جبکہ عمر شیخ کی سزائے موت کو 7 سال قید میں تبدیل کردیا تھا جو کہ وہ پہلے ہی پوری کرچکے تھے۔
تاہم رہائی کے احکامات کے فوری بعد ہی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) نے سندھ حکومت کو خط لکھا تھا جس میں ملزمان کی رہائی سے نقصِ امن کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔
چنانچہ مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) آرڈیننس کے تحت صوبائی حکام نے انہیں 90 دن کے لیے حراست میں رکھا تھا، یکم جولائی کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت ایک نیا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا جس کے تحت مزید تین ماہ کے لیے انہیں حراست میں رکھا گیا اور بعد ازاں ان کی قید میں مزید توسیع ہوتی رہی۔
یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے ملزمان کی رہائی کے حکم کے خلاف حکومت سندھ اور صحافی کے اہلِ خانہ کی جانب سے دائر درخواستیں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔