بچپن سے پچپن تک: پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں (چھٹی قسط)
اس سیریز کی بقیہ اقساط: پہلی قسط، دوسری قسط، تیسری قسط، چوتھی قسط، پانچویں قسط
ابتدائی کلاسوں میں ہمیں کاپی پر صرف پینسل سے لکھنے کی اجازت ہوتی تھی۔ دوسری یا تیسری جماعت میں پین استعمال کرنے کی اجازت ملی تو ہمارا ایگل پین سے تعارف ہوا۔
ایگل، جو اپنے اشتہار کے مطابق ایک ’عالمگیر قلم‘ ہوا کرتا تھا، ہر طالب علم کی بنیادی ضرورت ہوا کرتا تھا۔ اس پین میں اِنک ڈلتی تھی جسے ہم ’سیاہی‘ بھی کہتے تھے، روشنائی بھی اور دَوات بھی۔ یہ نیلے، کالے، لال اور ہرے رنگ کی ملتی تھی، لیکن زیادہ تر نیلی روشنائی ہی استعمال ہوتی تھی۔ ایگل پین کے آگے پیچھے 2 ڈھکن ہوتے تھے۔ بڑے ڈھکن کو کھولنے سے نب والا حصہ سامنے آ تا تھا، جبکہ پیچھے لگا چھوٹا ڈھکن اس وقت کھولا جاتا تھا جب پین میں اِنک ڈالنی ہوتی تھی۔ پین میں سیاہی بھرنے کا بھی ایک خاص میکینزم ہوتا تھا۔
پین کے پچھلے ڈھکن کو کھولنے پر پلاسٹک کا ایک کالا رولر سا نظر آتا تھا۔ پین کا نب والا سرا سیاہی کی بوتل میں ڈبو کر اس رولر کو انگلیوں سے گھمانے پر پین کے اندر سرنج کی طرح پھنسی ایک ربر آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی جاتی تھی اور اس سے پیدا شدہ ویکیوم کی وجہ سے سیاہی کھنچ کر پین میں بھرتی چلی جاتی تھی۔ کبھی اچانک سیاہی ختم ہوجاتی تو پین لکھنا بند کردیتا تھا اور ایسا اگر امتحان کے دوران ہوجاتا تو معاملہ بہت تشویشناک ہوسکتا تھا۔ چنانچہ بچے یا تو سیاہی بھرے 2 پین ساتھ لے کر آتے یا پھر ایک بھری ہوئی دَوات ساتھ رکھتے۔ کبھی کبھی یہ دَوات بستے کے اندر ٹوٹ بھی جاتی تھی۔ پھر تو ساری کتابیں اور کاپیاں نیلے نیلے دھبوں سے داغ دار ہوجاتی تھیں اور بُری لگتیں، کیونکہ اس زمانے میں داغ اچھے نہیں ہوتے تھے۔تقریباً ہر طالب علم کی جیب میں یہ پین اٹکا ہوا ہوتا تھا۔
کبھی کبھی جیب میں لگا پین بھی سیاہی چھوڑ دیتا تو وہ جیب کے ایک سرے پر پھیل کر بڑا سا دھبہ بنا دیتی۔ یہ دھبہ بڑی مشکل سے دُور ہوتا۔ انک ریموور بھی ملا کرتا تھا لیکن وہ صرف کاغذ ہی پر کام کرتا تھا۔ لکھتے لکھتے پین اگر ہلکا ہوجاتا تو اسے سائیڈ میں کرکے فرش کی طرف زور سے جھٹکا دیا جاتا تاکہ پین میں پھنسی سیاہی آگے آجائے۔ اس عمل سے اسکول کے فرش پر، فرنیچر پر، ساتھیوں کے بستوں پر اور اکثر بچوں کے یونیفارم پر بھی سیاہی کے دھبے بن جاتے تھے جو اسی ’پین جھاڑ‘ عمل کا نتیجہ ہوتے تھے۔
کبھی کسی کے پین میں سیاہی ختم ہوجاتی اور دَوات بھی نہ ہوتی تو سیاہی کسی ساتھی کے پین سے ادھار بھی مانگی جاسکتی تھی۔ اس کے لیے دونوں پینوں کی نبیں اس طرح ایک دوسرے سے ملائی جاتیں جیسے پرندے ایک دوسرے سے چونچ ملاتے ہیں۔ پھر جس بچے کے پین میں سیاہی بھری ہوئی ہوتی وہ اپنے پین کا پچھلا رولر الٹا گھماتا۔ اس طرح اس کے پین سے سیاہی کے قطرے باہر نکلنے لگتے۔ لیکن عین اسی وقت خالی پین والا بچہ اپنے رولر کو سیدھا گھماتا جاتا۔ یوں ایک پین سے نکلے ہوئے قطرے دوسرا پین چوستا جاتا اور سیاہی خالی پین میں منتقل ہوجاتی۔ سیاہی ملتے ہی پریشان بچہ مطمئن ہوجاتا اور اپنا کام شروع کردیتا۔ اگلی مرتبہ وہ بھی اسی طرح کسی کو سیاہی دیتے نظر آتا اور یوں یہ صدقہ جاریہ والا کام جاری رہتا۔
ایگل کے پین عام طور سے کالے، نیلے، ہرے اور لال رنگ ہی کے ہوتے تھے، البتہ پھوہڑ اور بھلکڑ بچوں سے ان کے ڈھکن بدل جاتے تو یہ پین رنگ برنگے ہوجاتے تھے۔ بازار میں جگہ جگہ گھڑی سازوں کی طرح پین ساز بھی بیٹھے نظر آتے تھے۔ پین کی مرمت کروانی ہو، نب بدلوانی ہو، ڈھکنا ٹوٹنے یا گم ہونے کی صورت میں دوسرا چاہیے ہو، ہر کام اس پین ساز کے پاس ہوجاتا تھا۔
کچھ لوگوں کو خطاطی کا شوق ہوتا تھا تو وہ یا تو نِب کا سرا قینچی سے کاٹ کر چوڑا کرلیتے تھے یا پھر زیڈ کی چوڑی نِب خرید کر پین میں لگاتے اور اپنی کاپیوں پر خوشخطی میں اپنا نام، بسم اللہ اور یا اللہ، یا محمد وغیرہ لکھنے کی کوشش کرتے تھے۔
ایگل تو خالصتاً پاکستانی پین تھا۔ بعد میں چینی ساختہ ’ہیرو‘ پین بھی مشہور ہوا، جو ہوتا تو پلاسٹک کا تھا، لیکن اس کا ڈھکنا اسٹین لیس اسٹیل کا ہوتا تھا۔ پین تو پارکر اور شیفر کمپنی کے بھی ہوتے تھے لیکن یہ بہت مہنگے ہوتے تھے اور خصوصاً شادی بیاہ کے مواقع پر تحفے میں ملا کرتے تھے۔ بعد میں بال پین آگئے جن کی شروع میں تو بہت مخالفت ہوئی، لیکن اپنی کم قیمت اور سیاہی ختم ہونے کی پریشانی سے نجات کے باعث رفتہ رفتہ ہر طرف چھا گئے اور سیاہی والے پین معدوم ہوتے چلے گئے۔ پارکر اور شیفر جیسے پین تو اب بھی ملتے ہیں لیکن ہمارا وہ ہمدم و دَم ساز ساتھی ایگل پین اللہ جانے کب بننا بند ہوکر تاریخ کا حصہ بنا اور ماضی کی فضاؤں میں معدوم ہوگیا۔
تیسری جماعت میں ہمارے ٹیچر قیوم سر ہوگئے۔ بے حد شفیق، ہمدرد، مہربان اور دوست بن کر پڑھانے والے۔ اگلے 3 سال تک یہی ہمارے کلاس ٹیچر رہے اور ہم ان کی شفقت تلے علم و تہذیب سے آراستہ ہوئے۔
قیوم سر لانڈھی فیوچر کالونی میں رہتے تھے۔ ان کے ساتھ ان کا بھانجا فرحان بھی آتا تھا جو ہمارا کلاس فیلو تھا۔ میری سلیم سے بڑی اچھی دوستی ہوگئی اور کبھی کبھی میں سلیم اور سر قیوم کے ساتھ ریلوے لائن پر چلتے ہوئے ان کے گھر فیوچر کالونی بھی جایا کرتا تھا۔ 2019ء میں میری کتاب ’کراچی جو ایک شہر تھا‘ شائع ہوئی تھی جس میں، مَیں نے اپنے پرائمری اسکول کا ذکر کیا تھا۔ میری یہ کتاب میرے ایک انجنیئر دوست ریحان سلیم نے پڑھی تو اس نے مجھے بتایا کہ کسی زمانے میں اس کے ماموں بھی ریڈیو کالونی اسکول میں پڑھایا کرتے تھے۔ میں نے چونک کر ان کا نام پوچھا تو اس نے کہا 'عبدالقیوم'۔ یہ نام سن کر میں چونکا۔
'کہیں یہ وہی ہمارے قیوم سر تو نہیں؟'، میں نے سوچا۔
میں نے ریحان سے پوچھا کہ اس وقت وہ کہاں رہتے تھے؟ اس نے بتایا کہ لانڈھی فیوچر کالونی میں۔ اب تو میں اُچھل پڑا۔ ریحان نے مزید بتایا کہ اس وقت اس کا بڑا بھائی فرحان بھی ان کے ساتھ رہتا تھا جو اسی ریڈیو کالونی اسکول ہی میں پڑھتا تھا۔ اب تو مجھے یقین ہوگیا کہ ریحان کے ماموں ہی ہمارے استاد سر قیوم تھے۔ میں نے اگلے سال کراچی پہنچتے ہی ریحان سے رابطہ کیا اور سر قیوم سے ملاقات کی خواہش ظاہر کردی۔
ریحان نے اگلے ہی دن مجھے اور اپنے قیوم ماموں کو گلستان جوہر میں اپنے گھر کھانے پر بلالیا۔ میں کشاں کشاں پہنچا اور پھر کوئی 45 سال بعد قیوم سر کو دوبارہ دیکھا تو بہت خوشی ہوئی کہ وہ اب بھی بہت صحت مند اور ہشاش بشاش تھے۔ وہ بھی مجھ سے مل کر بڑے خوش ہوئے اور میرے حالات پوچھتے رہے۔ انہوں نے اسکول کے زمانے کی کچھ یادگار بلیک اینڈ وائٹ تصویریں بھی مجھے دیں جو میرے لیے ایک سوغات کا درجہ رکھتی ہیں۔
ہمیں قائدآباد میں رہتے ہوئے پہلا سال تھا جب میں نے اپنی زندگی کا پہلا روڈ ایکسیڈنٹ دیکھا۔ ہمارا گھر مین نیشنل ہائی وے پر ایبٹ کمپنی سے متصل تھا۔ نیشنل ہائی وے ویسے تو پاکستان کی مرکزی شاہراہ ہے جو لاہور میں جی ٹی روڈ سے مل کر پشاور تک جاتی ہے، لیکن 1970ء میں جب کراچی سے حیدرآباد تک سپر ہائی وے تعمیر ہوگئی تو سارا بین الصوبائی ٹریفک اس پر منتقل ہوگیا، جبکہ نیشنل ہائی وے صرف ٹھٹہ اور بدین کے لیے مخصوص ہوکر رہ گئی۔ چنانچہ اس پر ٹریفک خاصا کم ہوگیا۔ ہم جب یہاں آباد ہوئے تو اس وقت یہ ایک سنگل روڈ ہوا کرتی تھی۔ اس وقت ہمارا گھر سڑک کے عین اوپر نہیں ہوتا تھا۔
ہم سے آگے ایک مکان اور ہوا کرتا تھا۔ لیکن جب 1973ء میں پاکستان اسٹیل مل اور پورٹ قاسم کا افتتاح ہوا تو اس روڈ پر بھی ٹریفک بڑھنا شروع ہوگیا۔ چنانچہ 1982ء میں اسے دو رویہ کیا گیا اور اس توسیع کی زد میں آکر ہم سے آگے والا مکان ختم ہوگیا۔ نتیجتاً ہمارا مکان مین روڈ پر آگیا۔ لیکن اس وقت تک ہم یہ مکان چھوڑ کر ملیر منتقل ہوچکے تھے۔ روڈ پر آنے کی وجہ سے اس جگہ کی کمرشل ویلیو بڑھ گئی اور ابّا نے 10 سال پہلے صرف 2800 روپے میں خریدا ہوا یہ مکان ڈیڑھ لاکھ روپے میں بیچ دیا۔ آج اس مکان کی جگہ پر ایک ریسٹورنٹ کھلا ہوا ہے۔
1973ء میں جب یہ سنگل روڈ تھی تب قائدآباد سے آگے ایک اہم جگہ ’بھینس کالونی‘ ہوتی تھی جہاں سرکاری مذبح خانہ (کمیلا) ہوا کرتا تھا۔ یہاں سے روزانہ پورے شہر کو گوشت فراہم ہوتا تھا، بلکہ آج بھی ہوتا ہے۔ اس وقت قائدآباد سے بھینس کالونی تک ٹو اسٹروک سوزوکی وین چلتی تھی۔ بعد میں یہی سوزوکی وین ہائی روف کی شکل میں آگئی جو آج بھی ایک مقبول سواری ہے۔ سوزوکی کے علاوہ قائدآباد سے بھینس کالونی کالی پیلی ٹیکسیاں بھی چلتی تھیں۔ ان میں 4 افراد اپنا اپنا کرایہ دے کر سفر کرسکتے تھے۔
ایک دن میں سڑک پر ابّا کی دکان کے آگے کھڑا تھا کہ سڑک پر اسی طرح کی ایک ٹیکسی اور ٹرک کا خوفناک ایکسیڈنٹ دیکھا۔ یہ میری زندگی کا وہ پہلا روڈ ایکسیڈنٹ تھا جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہوا یوں کہ شہر کی طرف سے آنے والا ایک ٹرک جیسے ہی ہماری دکان کے قریب پہنچا، اسی وقت پھٹے پرانے کپڑے پہنے ایک دیوانہ سا شخص اللہ جانے کہاں سے سڑک پر عین اس ٹرک کے سامنے آگیا۔ ٹرک والے نے اسے بچانے کے لیے پوری طاقت سے بریک بھی لگایا اور ٹرک کو دائیں طرف گھمانے کی بھی کوشش کی لیکن عین اسی وقت بدقسمتی سے بھینس کالونی کی طرف سے آنے والی وہ تیز رفتار ٹیکسی بھی قریب پہنچ گئی۔ وقت کی بات تھی، ٹرک والا عین ٹیکسی کے سامنے آگیا۔ دونوں گاڑیوں کے بریک ہولناک آوازوں میں چرچرائے اور پھر ایک دھماکے کے ساتھ دونوں گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہوگیا۔
لوگ تیزی سے گاڑیوں کی طرف لپکے۔ ٹرک کو تو کچھ بھی نہیں ہوا تھا البتہ ٹیکسی میں بیٹھے چاروں افراد بُری طرح زخمی اور خونم خون ہوچکے تھے۔ ان کے تڑپتے اجسام کو تباہ شدہ ٹیکسی سے نکال کر ہماری دکان کے سامنے ہی لٹایا گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں گاڑیاں انہیں اٹھا کر ہسپتال تو لے گئیں، لیکن اللہ جانے ان بیچاروں کا کیا انجام ہوا۔ ہمارا پورا محلہ اس حادثے پر افسردہ تھا۔ خصوصاً میرے لیے تو وہ ایک انتہائی صدمہ انگیز واقعہ تھا۔ ان زخمیوں کی حالت مجھ سے کئی دن تک بھلائی نہ جاسکی، بلکہ آج بھی ایسے ہی یاد ہے جیسے کل کا واقعہ ہو۔
ہمارے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر دواؤں کی معروف کمپنی ایبٹ کی فیکٹری تھی۔ اس کے ملازمین میں ہمیں خواتین کی تعداد زیادہ لگتی تھی۔ رنگ برنگے فیشن ایبل کپڑے پہنے لڑکوں اور لڑکیوں کا غول روزانہ صبح شام فیکٹری میں آتا جاتا رہتا تھا۔ جس دن کمپنی میں کوئی فنکشن یا تقریب ہوتی اس دن تو رونق مزید بڑھ جاتی۔ چار دیواری کے اندر سے موسیقی کی آوازیں ابھرتیں اور طرح طرح کے کھانوں کی خوشبوئیں آنے لگتیں۔ کمپنی والے بھی اس دن محلے کو نہیں بھولتے تھے۔ دعوت میں جو بھی کھانا بنتا اس کی کچھ دیگیں محلے میں بھی بھجوائی جاتیں اور سب گھروں میں کھانا تقسیم کیا جاتا۔ اس طرح کمپنی کا فنکشن پورے محلے کا فنکشن بن جاتا۔ ایبٹ کمپنی تو آج بھی اسی جگہ آب و تاب سے موجود ہے، البتہ باقی معاملات اللہ جانے۔
بچپن کے شوق بھی نرالے ہوتے تھے۔ تقریباً ہر چیز ہی جمع کرنے کا شوق ہوتا تھا۔ اس زمانے میں چیزیں ہوتی بھی کیا تھیں۔ ماچس کی ڈبیاں، سگریٹ کے پیکٹ، سستے کھلونے، رنگ برنگے بٹن، سمندری سیپیاں اور گھونگھے، شیشے اور چوڑیوں کے رنگ برنگے ٹکڑے، ساحل سمندر سے جمع کیے گئے گول مٹول پتھر اور اسی طرح کی بے قیمت چیزیں۔ اس زمانے میں لگتا ہے کہ لوگ سگریٹ بہت زیادہ پیا کرتے تھے کیونکہ اس کے پیکٹ عام اور وافر مقدار میں مل جاتے تھے۔
صاف ستھرے اور خوبصورت پیکٹ تو ہم رکھ لیتے تھے البتہ خراب کنڈیشن والے پیکٹوں کی پٹیاں قینچی سے کاٹ کر اور پھر ان میں انگلیاں گھما کر گول گول چھلے بنا لیتے۔ پھر شام کو کراچی کی تیز ہوا میں جب ہم گتے کے ان چھلوں کو روڈ پر رکھتے تو وہ پہیے کی طرح تیزی سے گھومتے ہوئے سڑک پر دوڑنے لگتے۔ ہم پیچھے پیچھے چیختے اور شور مچاتے ان چھلوں کا تعاقب کیا کرتے۔
سگریٹ کے خالی پیکٹوں کا ایک اور بھی بڑا مزے کا استعمال ہوتا تھا۔ چند پیکٹوں کو آپس میں ملاکر انہیں سائیکل کی قینچی میں اس طرح پھنسا دیا جاتا تھا کہ سائیکل چلنے پر وہ ٹائر کی تیلیوں پھنس کر پھڑپھڑاہٹ کی تیز آواز نکالنے لگتے تھے۔ بچے ابّا کی سائیکل کے پچھلے ٹائر میں اس طرح پیکٹ پھنسا کر اور سائیکل کو اسٹینڈ پر کھڑا کرکے جب اس کا پیڈل ہاتھوں سے پکڑ کر گھماتے تو ٹائر تیزی سے گھومتا اور پیکٹ کی پھڑپھڑاہٹ کا ایک مسلسل شور بلند ہونے لگتا اور بچے خوشی سے تالیاں بجانے لگتے۔
ہمارے محلے کے 2 بھائی بندرگاہ پر کشتیوں میں کام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں سمندر میں ڈوبی ہوئی ریت میں اٹی ایک ایسی بوری ہاتھ آئی جس میں فرانس کی بنی ہوئی طرح طرح کی خوبصورت اور مضبوط دھاتی کھلونا گاڑیاں (ڈنکی کارز) بڑی تعداد میں بھری ہوئی تھیں۔ انہوں نے اعلیٰ کوالٹی کی ان ننھی منی ماڈل گاڑیوں کو محلے میں ہی چار چار آنے آٹھ آٹھ آنے میں بیچنا شروع کردیا۔ ہمارے تو مزے آگئے۔ میں نے چند دنوں میں ہی ایسی کئی گاڑیوں کا ذخیرہ اپنے پاس جمع کرلیا۔ ڈنکی کاروں کا یہ خزانہ کئی سال تک میرے پاس جمع رہا تھا۔ پھر اللہ جانے کہاں چلا گیا۔
پھر اس دور میں بچوں کے لیے کھانے پینے کی ‘چیز‘ بھی آج سے مختلف ہوتی تھی۔ گائے والی گولی، ہلال کے کھٹ مٹھے، فانٹا اور سیون اَپ کی ٹافیاں، پھانکنے والا خشک دودھ، دودھ سے بنی ’امّی‘ ٹافی، مکھن ٹافی، مصری، پیپرمنٹ کی ٹکیاں، گلوکوز کی رنگ برنگی گڑیاں، موسمبی کی پھانکوں والی ٹافیاں، بطخ کے انڈے والی ڈبیا میں رنگا رنگ میٹھی گولیاں، آلو کی چٹپٹی چٹنی والے چھوٹے سموسے، یونین بسکٹ، پھول والے بسکٹ، نائس بسکٹ اور اسی طرح کی سیدھی سادی چیزیں۔
گلیوں میں طرح طرح کے خوانچہ فروش بھی آتے تھے۔ لکڑی کے ڈنڈے پر مڑھے رنگ برنگے میٹھے قوام سے چڑیاں طوطے گڑیا حقے بنا کر دینے والے، چینی لے کر رنگ برنگے، میٹھے اور نرم ملائم بڑھیا کے بال بنا کردینے والے، طرح طرح کی چٹنیاں، کھجور کے لڈو اور ننھی منی مچھلیاں بیچنے والے بنگالی، گیس کے غبارے بیچنے والے۔ شام کو جس وقت بچوں کو ایک آنہ، 2 آنہ، 4 آنہ جیب خرچ ملا کرتا تو وہ خوشی سے باہر بھاگتے اور محلے کی چیز والی دوکان یا خوانچہ فروش کے سامنے جمگھٹا لگا لیتے۔
پھر وہ چیزیں بھی ہوتی تھیں جو کھانے پینے کی نہیں ہوتی تھیں۔ چھوٹے بڑے کھلونے، پتنگیں، لٹو، پٹاخے، پھلجھڑیاں وغیرہ وغیرہ۔ اس زمانے میں وہ سب چیزیں ہمیں اپنی جان سے بھی پیاری ہوتی تھیں، لیکن آج جب ہم بڑے ہوگئے ہیں تو وہ سب چیزیں اب ہمارے لیے قابلِ توجہ ہی نہیں رہیں۔ اب تو ہماری حسرتیں ہی کچھ اور ہیں۔
ابن انشاء کی ایک نظم ہے:
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
ایک میلے میں پہنچا ہمکتا ہوا
جی مچلتا تھا ایک ایک شے پر مگر
جیب خالی تھی کچھ مول لے نہ سکا
لوٹ آیا لیے حسرتیں سینکڑوں
ایک چھوٹا سا لڑکا تھا میں جن دنوں
خیر محرومیوں کے وہ دن تو گئے
آج میلہ لگا ہے اسی شان سے
آج چاہوں تو اک اک دکاں مول لوں
آج چاہوں تو سارا جہاں مول لوں
نارسائی کا اب جی میں دھڑکا کہاں
پر وہ چھوٹا سا الھڑ سا لڑکا کہاں
تبصرے (10) بند ہیں