خدیجہ صدیقی حملہ کیس: ’مجرم نے سزا میں رعایت تکنیکی طور پر حاصل کی‘
خدیجہ صدیقی کو چاقو کے 23 وار سے زخمی کرنے والے مجرم شاہ حسین کی قبل از وقت رہائی کے 10 روز بعد حکومت پنجاب نے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ ملزم کو صوبائی حکومت کی جانب سے سزا میں کوئی ’قانونی رعایت‘ نہیں دی گئی بلکہ انہیں ’تکنیکی رعایت‘ ملی ہے۔
سال 2018 میں شاہ حسین کو اس کیس میں جرم ثابت ہونے پر 5 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور گزشتہ ہفتے یہ بات سامنے آئی کہ ملزم نے اپنی سزا کے محض ساڑھے 3 سال قید میں گزارنے کے بعد قبل از وقت رہائی حاصل کرلی۔
جیل سپرنٹنڈنٹ کے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق مجرم کو 17 جولائی کو رہا کیا گیا تھا، اس پیش رفت پر سوشل میڈیا پر کہرام مچ گیا، معروف وکیل اور سماجی رضاکار جبران ناصر نے شاہ حسین کی رہائی کے میرٹس پر سوالات کھڑے کردیے۔
یہ بھی پڑھیں:خدیجہ صدیقی کیس: مجرم کی 'جلد' رہائی پر سول سوسائٹی نالاں
دوسری جانب متاثرہ خاتون خدیجہ صدیقی نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا کہ انہیں اس پیش رفت سے آگاہ نہیں کیا گیا اور انہوں نے وزیر جیل خانہ جات فیاض الحسن چوہان کو حملہ آور کی قبل از وقت رہائی کا ذمہ دار قرار دیا۔
جس کے بعد ایک ویڈیو پیغام میں فیاض چوہان نے اس بات پر زور دیا کہ شاہ حسین کو صدر، وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کسی کی جانب سے قانونی رعایت کی صورت میں کوئی ریلیف نہیں ملا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلکہ شاہ حسین کو اچھے چال چلن، خون کا عطیہ دینے، قرآن پاک ترجمے سے پڑھ کر، بی اے کر کے اور مختلف مشقتیں کاٹ کر سزا میں 15 سے 16 ماہ کی تکنیکی رعایتیں حاصل دی گئی ہے جس کی تفصیلات میں نے جاری کردی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مجرم کو قانون و آئین کے مطابق رعایت ملی ہے۔
دوسری جانب متاثرہ فریق خدیجہ صدیقی نے جیو نیوز کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرا مجرم جسے سپریم کورٹ آف پاکستان نے 5 سال قید کی سزا دی تھی اس کو رہا کیا جانا میرے لیے بہت ’حیران کن‘ تھا۔
انہوں نے کہا کہ شاہ حسین کو کس بنیاد پر سزا میں رعایت ملی اور رہا کیا گیا اس کا مجھے کچھ علم نہیں اس کے لیے میں نے آئی جی جیل خانہ جات، صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان کو خط لکھا لیکن ان کی جانب سے مجھے کوئی تفصیلات نہیں ملیں۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: خدیجہ صدیقی کیس میں ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم، مجرم گرفتار
خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ ہماری جیلوں کے قواعد ان قیدیوں کی سزا میں رعایت کی اجازت دیتے ہیں جن کی سزا تھوڑی سی رہ گئی ہو اور خون کا عطیہ دینے یا قرآن پاک پڑھنے پر ایک ماہ کی رعایت مل جاتی ہے لیکن ڈیڑھ سال کی رعایت جیسی سخاوت میں نے نہیں دیکھی۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں یہاں اثر و رسوخ کس طرح استعمال ہوا وہ ہمیں نظر آرہا ہے، جہاں اثر و رسوخ ہوتا ہے وہاں اپیلوں پر سنوائی بھی جلدی ہوجاتی ہے اور ملزم کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں کیس داخل کیا گیا لیکن مجھے فریق نہیں بنایا گیا حالانکہ حکومت پنجاب کی ذمہ داری تھی کہ وہ مجھے آگاہ کرتے۔
خدیجہ صدیقی کا کہنا تھا کہ 10 سے 15 سال سے عدالتوں میں اپیلیں نہیں سنی گئیں لیکن اس کیس میں چھٹیوں کے سزا کے دوران رعایت دے دی گئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے اس کیس میں واضح نظر آرہا ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے، مجھے ان سوالات کا جواب دیا جائے کہ اگر شفافیت کے ساتھ یہ کام ہوا ہے تو کس طرح ہوا، مجھے اس کی تفصیلات دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر یہ قانونی طور پر ہوا تو منظور ہے بصورت دیگر ہم اس کے خلاف ہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔
سینٹرل جیل لاہور سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق شاہ حسین کو 3 لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی اور جیل قواعد کے مطابق سزا میں حاصل کی گئی رعایت کے بعد 17 جولائی کو رہا کردیا گیا تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق شاہ حسین کو متعدد جرمانوں کے علاوہ 5 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔
خدیجہ صدیقی حملہ کیس
یاد رہے کہ 5 جون 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قانون کی طالبہ پر چھریوں کے وار کرنے کے مقدمے میں بری ہونے والے ملزم کی رہائی کا ازخود نوٹس لیا تھا۔
خیال رہے کہ 4 جون 2018 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سنایا تھا۔
مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کے خلاف قرارداد منظور
واضح رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے جارہی تھی۔
خدیجہ اپنی 7 سالہ بہن صوفیہ کو اسکول سے گھر واپس لانے کے لیے گئی تھی اور ابھی اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والی تھی کہ ہیلمٹ پہنے شاہ حسین ان کی جانب بڑھے اور خدیجہ کو 23 بار خنجر کے وار کر کے شدید زخمی کردیا۔
واقعے کے ایک ہفتے کے اندر لاہور ہائی کورٹ میں ملزم کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا، عدالت کے سامنے شواہد پیش کیے گئے اور شاہ حسین کی شناخت یقینی بنانے کے لیے ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی۔
تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ستمبر 2016 میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کیے جانے کے باوجود دوماہ بعد شاہ حسین کو سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی۔
بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم رواں سال مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی۔
سینئر وکیل کے بیٹے شاہ حسین نے سیشن عدالت کے 5 سال قید کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ جسٹس نے ان کی بریت کا فیصلہ سنا دیا تھا۔
تاہم جنوری 2019 میں سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے مجرم شاہ حسین کی بریت سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے شاہ حسین کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔